• news
  • image

ذکر پرویز مشرف کے حواریوں کا

پرویز مشرف ایک فرد کا نام نہیں، ایک ذہنیت کا نام ہے، وہ ذہنیت جو سکندر مرزا سے شروع ہوئی اور ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق سے ہوتی ہوئی پھر انہی پر ختم ہوئی، اس میں بحیثیت مجموعی فوج کا کردار ہے، نہ ان جرنیلوں کا جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، اپنے حلف نامے کا پاس رکھتے ہیں اور اس بلند مرتبہ کاز سے والہانہ لگاﺅ بھی رکھتے ہیں، جس کا تعلق پاکستان کی سالمیت، بقا اور استحکام سے ہے، تاریخی ریکارڈ گواہ ہے، اسٹیبلشمنٹ ہی بعض جرنیلوں کو مارشل لاءکے راستے پر لے آئی اور پھر ان کے اقتدار کے دنوں میں ساتھ چپک کر اپنے عزائم بھی پورے کر تی رہی۔ ایوب خان کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا مہرہ قدرت اللہ شہاب تھا ، جو شہاب نامہ لکھ کر مینڈک کی طرح پاک صاف ہو گیا، اگر چہ اس کو خود اپنی تحریروں ماں جی اوریا خدا کے حوالے سے ازحد عزت مل چکی تھی، لیکن وہ اپنے کردہ گناہوں کو معاف کرانے کے لیے سرگرداں رہا، شہاب نامے کا آخری باب چھوٹا منہ، بڑی بات لکھ کر روحانی شخصیت بن گیا اور شاید اس لبادے میں اسے روحانی و ابدی سکون بھی میسر آگیا، ایوب خان کو کتاب فرینڈ ناٹ ماسٹر لکھ کر دی ، اس تصنیف میں الطاف گوھر بھی شامل تھے ، وقت بسا اوقات ایک ہی انداز سے کروٹیں بدلتا رہتا ہے، بعد ازاں دور بدلا تو الطاف گوہر کے بیٹے ہمایوں گوہر نے پرویز مشرف جیسے آمر کو کتاب لکھ کر دی، الطاف گوہر کو ایوب خان کی حاشیہ برداری کے برعکس ان کی بے بدل تحریروں اور حلقہ¿ ارباب ذوق کے حوالے سے جو عزت ملی، اس کے سبب وہ آج تک ادبی حلقوں میں احترام کے ساتھ یاد کیے جاتے ہیں۔ آمروں کو لائی تو اسٹیبلشمنٹ لیکن بعدازاں ان کے حواری پیدا ہو گئے جو ان کے اقتدار کو دوام بخشنے کا سبب بنتے رہے ۔ پرویز مشرف کو آمر مطلق کا روپ دھارنے کے بعد دو پیرزادوں کی رفاقت و معاونت میسر آئی، ایک شریف الدین پیرزادہ اور دوسرے عبدالحفیظ پیرزادہ۔ جو اپنی جوانی کے دور میں ”سوہنڑا منڈا“ کے نام سے سیاسی حلقوں میں معروف تھے اور 1973ءکے آئین کو تحریری شکل میں لانے کا سہرا بھی انہی کے سر تھا ۔ ان دونوں پیرزادوں کا پرویز مشرف کے ہاں رہن بسیرا تھا، دوستی ہو گئی اور قانونی مشاورتوں کا خوب معاوضہ ملاتووارے نیارے ہوئے اور یاری بھی گہری ہوگئی۔ نعیم بخاری سے بھی پرویز مشرف کی گاڑھی چھنتی تھی، وہ ان کی سہانی شاموں کے رفیق تھے اور ان مواقع پر قانونی مشاورت بھی ہو ہی جاتی تھی، اس ضمن میں نعیم بخاری کے حوالے سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معزولی کی بھی اپنی ایک انوکھی کہانی ہے، جس کو دھراتے ہوئے ذہن میں تحیر کا ایک سماں بندھ جاتاہے، پرویز مشرف کی نعیم بخاری کے ساتھ دوستی کی سطح کیا تھی؟ بڑی جمالیاتی اور ماورائے آفاق دوستی تھی، وارفتگی کے عالم میں لطیفہ بازی اور سیاسی جوڑتوڑ پر خوب گفتگو رہتی، اس حوالے سے عبدالحمید عدم کا ایک شعر نوک قلم پر آگیا، سن لیجیے:

کبھی ہم فقیروں کو جو روک لیتی ہے، ناگہاں گردش زمانہ
وہاں سے رستہ ضرور جاتا ہے کوئی سوئے شراب خانہ
پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بھلا چودھری برادران کو کون بھول سکتاہے؟ جن کو آج بھی مارشل لاءبس دو قدم کے فاصلے پر نظر آتا ہے، گویا اس زلف کو پھبتی شب دیجور کی سوجھی، اسی لیے چودھری شجاعت حسین کو عام انتخابات 2018ءمیں ہوتے نظر نہیں آرہے ، فرماتے ہیں الیکشن کے امکانات بہت کم ہیں، اس لیے بھی کہ ان دونوں چودھریوں کے اذہان میں مارشل لائی دور کی عیش پرستی رچ بس گئی ہے ، اب ان کو انتظار کسی اگلے پرویز مشرف کا ہے، ان کی سیاسی جماعت مسلم لیگ ق مارشل لائی دور کی سیاست میں ہی گنگ پارٹی بنتی ہے، جس میں پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ اور چودھری شجاعت حسین جزوقتی وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں،وہ اپنے خوابوں میں اگلے پرویز مشرف کا مکھڑا اکثر و بیشتر دیکھتے رہتے ہیں، جس کے متعلق وہ ہزاروں کے مجمع میں کھڑے ہو کر ببانگ دہل کہہ سکیں کہ ہم باوردی صدر پرویز مشرف کو دس مرتبہ بھی منتخب کرا سکیں تو ضرور کریں گے کیونکہ یہی ہمارے خوابوں کی تعبیر ہیں، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد دونوں چودھری اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ اپنے ”محسن“ کو منہ تک لگانا پسند نہ کیا ، یہ صورت حالات بدستور قائم و دائم ہے، شاید ان دونوں کا اب پرویز مشرف سے کوئی لین دین نہیں رہا۔ پرویز مشرف کے ایک سکہ بند حواری کا نام احمد رضا قصوری ہے، جو بغض معاویہ میں اس آمرکے حاشیہ بردار بنے اور پھر گویا اپنی تو جہاں آنکھ لڑی بس وہیں دیکھو کے مصداق بن گئے۔ افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے وکلاءکی تحریک کے دوران ان کے منہ پر سیاہی پھینکی گئی لیکن وہ اپنے عزائم پر ڈٹے رہے، لا ابالی طبیعت پائی ہے ، اب پتہ نہیں کیا معاملہ ہوا پرویز مشرف نے انہیں پارٹی سے نکال باہر کیا، ان کا تازندگی یہی حال رہا ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے، پرویز مشرف کے ایک اور منفرد اور اپنی مثال آپ حواری کا نام شیخ رشید ہے، جسے عرف عام میں ”شیدا ٹلی“ اور فرزند راولپنڈی کہا جاتا ہے، یہ وہ لیڈر ہے جو نواز شریف کے ساتھ تھا تو اس کے قصیدے گاتا اور لال حویلی میں انہیں بلا کر اتراتا رہتا تھا ، اس کی سیاسی نخوت ایسی تھی کہ چھوٹی پارٹیوں کو تانگہ پارٹی کا طعنہ دیتا اور حقارت سے ان کو دیکھتا تھا، اور اب جب کہ اس کی اپنی جماعت تانگہ پارٹی کا روپ دھار گئی ہے، اسے تحریک انصاف اور عوامی تحریک میں جائے پناہ مل چکی، گویا بقول امیر خسرو:
مراجا شد خرم را نیزجا شد
زن دہقان زاید یا نہ زاید
شیخ رشید پیپلز پارٹی کے خلاف تھا تو اس کا دشمن ہو گیا ، اور اب نواز شریف کے خلاف ہوا تو اس کے ساتھ دشمنی کی بد ترین مثال بن گیا، پرانی ویڈیوز اٹھا کر دیکھیں تو یہ لیڈر مجموعہ اضداد نظر آتاہے ، پرویز مشرف کا حواری بنا تو اپنا سب کچھ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس کا وزیر اطلاعات تھا تو پتھراﺅ کی تاب نہ لا کر وزیر ریلوے بن گیا ،لیکن پرویز مشرف کے جانے کے بعد اس کا دشمن نہ بن سکا بلکہ الٹا نواز شریف کا حریف بنا، اسی شیخ رشید کا طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ جس جس کا دشمن بنا ، پہلے اس کے گیت گاتا رہا اور جس کا حلیف بنا پہلے اس سے دشمنی نبھاتارہا،اس کے کردار پر تو بات نہیں کی جاسکتی، تاہم زبان عامیانہ بولتاہے ، عامیانہ فہم کے ساتھ جملے گھڑ گھڑ کر لانا اس کا شیوہ ہے، آپ پوچھیں گے پھر ہر الیکشن میں اپنے روایتی حلقے سے جیت کیوں جاتا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اپنے حلقے کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ جڑا رہتااور صرف الیکشن کے موسم میں ہی ان سے ووٹ لینے کے لیے نہیں جاتا، آتا جاتا رہتاہے ۔ پرویز مشرف کے حواریوں اور اس کے گیت گانے والوں میں بہت سے لوگ آج نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ ن میں نظر آتے ہیں، اسی طرح دیگر سیاسی پارٹیوں کی زینت بھی بنے ہوئے ہیں، ان میں دانیال عزیز، ماروی میمن اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کا نام بھی لیا جا سکتاہے ، یہ لوگ اپنی معاملہ فہمی کی وجہ سے ہر اگلی ٹرن میں قبولیت کا شرف پا جاتے ہیں ، تاہم ان سیاسی لیڈروں میں مشاہد حسین سید کا نام بھی آتاہے، جو اپنی معتدل مزاجی اور راست گوئی کے سبب ہر دلعزیز مانے جاتے ہیں، پرویز مشرف کے ساتھ تھے تو اپنی ذہنی و فکری سطح پر رہے ، مسلم لیگ ق میں بھی انکا یہی چلن رہا، وہ ہر دور کے دردمند دل رکھنے والے رہنماﺅں میں سے ہیں ، ادھر پرویز مشرف کا دور آیا اور گزر گیا، اس آمر نے اپنی فکر اور سوچ کے دھارے ایسے خطوط پر استوار کیے جو ملک کی سیاسی جماعتوں میں دراڑیں ڈال کر اپنا کام نکالنے کے لیے سود مند ہوتے ہیں، فارورڈ بلاک اور پیٹریاٹ ایسے باغی گروپ بنوا کر جو عزائم اس نے پورے کیے وہ اس سے پہلے کسی آمر کے حصے میں نہیں آئے، اس لیے فیصل صالح حیات سے لے کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے باغی لیڈروں تک کو اقتدار کی چمک ہی اسکے قریب لے آئی۔ اس نے جمہوری حکومتوں کی بر آوری کے تمام راستے مسدود کرکے آمریت کا جو جال بنا، خود ہی اس کے دام فریب میں آگیااور اقتدار سے رخصت کر دیا گیا، یہی اس آمر کا انجام تھا، جس سے ڈرنا چاہیے۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

epaper

ای پیپر-دی نیشن