• news

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان محمود خان اچکزئی سے الجھ پڑے

بدھ کو قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس ہوئے قومی اسمبلی کا 47واں سیشن 9روز جب کہ ریکوزیشن پر طلب کردہ سینیٹ کا268واں سیشن دو روز جاری رہنے کے بعد غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا اہم بات یہ ہے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں انتخابی اصلا حات ایکٹ میں ترمیم کی منظوری حاصل کر لی گئی جس کے تحت انتخابی اصلاحات ایکٹ میں امیدوار کے ختم نبوت پر ایمان پر حلف کی پرانی شق بحال کر دی گئی ۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران شدید کی ہنگامہ آرائی کی اور ان کے گلے پڑنے کے لئے اپنی آستینیں چڑھا لیں لیکن ایوان میں موجود خواجہ آصف ، سید خورشید شاہ اور مولانا فضل الرحمنٰ ایک سینئر سیاست دان کے ہونے والی بد سلوکی پر تماشا دیکھتے رہے پارلیمنٹ میں محمود خان اچکزئی نواز شریف حکومت کے حامی ہیں لیکن کوئی حکومتی ارکان ان کی مدد کو نہ آئے تحریک انصاف نے محمود خان اچکزئی کو فاٹا کے معاملے پر تقریر نہیں کرنے دی ہنگامہ کھڑا کردیا ، محمود خان اچکزئی نے بھی تحریک انصاف کو کھری کھری سنادیں اور دھمکی دی کہ’’ شاہ محمود قریشی آپ بیٹھ جائیں مجھے بات کرنے دیں اگر مجھے بات نہیں کرنے دیں گے تو آئندہ تحریک انصاف بھی بات نہیں کرسکے گی اگر رات تک بھی یہ چیختے رہیں گے تو میں کسی کو بولنے نہیں دوں گا اگر یہ مجھے بات نہیں کرنے دیں گے تو اجلاس ملتوی کر دیں‘‘ تحریک انصاف کے ارکان احتجاج کے دوران محمود خان اچکزئی کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے ان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ،ڈپٹی سپیکر نے شاہ محمود سے بیٹھنے کے درخواست کی تاہم شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ یہ پارلیمنٹ کیخلاف سازش ہے۔ ایسے نہیں چلے گا۔ میں بات کروں گا یا پھر اجلاس ملتوی کر دیا جائے قوم پرست رہنما نے دھمکی دی کہ چاہے اجلاس رات تک جاری رہے تحریک انصاف کے اراکان کو بات نہیں کرنے دوں گا اس دوران قائم مقام سپیکر نے موقع کی نزاکت بھانپتے ہوئے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔ تحریک انصاف کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہوکر نو نو کے نعرے لگائے ۔اجلاس کے ختم ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی محمود خان اچکزئی کے پاس پہنچ گئے ان کے درمیان بات چیت بھی ہوئی بات چیت میں اپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ ،مولانا فضل الرحمان, وزیر خارجہ خواجہ آصف اور جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ بھی شریک ہوگئے شاہ محمود قریشی کی محمود خان اچکزئی کے غصہ کو ختم کرنے کوشش کامیاب نہ ہوسکی ۔ بالآخر 37 ارکان پارلیمنٹ پر کالعدم تنظیموں سے رابطوں کے الزامات کا معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے قومی اسمبلی میں واضح کر دیا ہے کہ یہ معاملہ حل ہو چکا ہے اس کو مزید زیر بحث لایا جائے اور ہی نہ کوئی بات کی جائے ۔ تاہم انہوں نے اپوزیشن کے اس مطالبہ کی تائید کہ کسی میڈیا ہائوس کو اس معاملے میں نشانہ نہ بنایا جائے اورر مقدمہ واپس لیا جائے۔ حکومت کو بھی بلاوجہ میڈیا سے نہیں الجھنا چاہتی ہے، احتجاج ہمارا حق تھا کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا وزیراعظم خط کو جعلی قراردے چکے ہیں ،ہم مطمئن ہیں بدھ کو قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جاندار تقریر کی انہوں ختم نبوت اور فاٹا کے خیبر پختونخوا صوبہ میں انضمام کے ایشوز پر کھل کر بات کی اور کہا کہ ’’ حلف نامہ کے معاملے میں چپڑاسی سے لے کر منسٹر تک جیب کترے کو تلاش کیا جائے عقیدہ ختم نبوتؐ کے قانون میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی ہے انتخابی قانون کے کاغذات نامزدگی سے حلف نامہ نکالنے کے معاملے میں آن ریکارڈکہہ رہا ہوں کہ تحریک انصاف کا بھی کردارہے وقت بتائے گا انھوں نے کیا کچھ کیا ،مولانا کے ان ریمارکس پر تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان میں شور مچایا ،شاہ محمود اور شیریں مزاری نے کہا کہ ہم اس میں شامل نہیں تھے۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ وزراء اور وزارتوں کا رویہ افسوسناک ہے، میں نے ایوان میں حاضری کو یقینی بنانے کیلئے تمام ارکان کو خطوط لکھے ہیں۔ بدھ کو بھی قومی اسمبلی میں وزراء کی عدم موجودگی کا مسئلہ برقرار رہا جس پر اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے سوالات کے تحریری جوابات ارسال نہ کرنے والے وزارت کے افسر کو معطل کر دیا ہے اور ایوان میں رپورٹ پیش کر دی ہیسینیٹ میں بھی 37ارکان پارلیمنٹ کی کالعدم تنظیموں سے رابطوں کی نگرانی کرنے کے حوالے سے مبینہ آئی بی کے خط کی بازگشت سنی گئی قائد حزب اختلاف نے اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ 2ارکان سینیٹ کے حوالے سے آئی بی نے اپنی رپورٹ میں کالعدم تنظیموں سے تعلق کا الزام لگایا ہے گو کہ حکومت نے اس کو رد کیا ہے، اگر یہ الزام اصلی ہوتا تب بھی حکومت نے اسے رد کرناتھا، میں نہیں مانتا کہ جاوید عباسی جیسا شخص دہشت گرد ہو سکتا ہے،یہ سیاسی مووپر لکھوایا گیا وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ میرا نام بھی فہرست میں شامل تھا میں نے وزیراعظم اور آئی بی حکام سے اس معاملہ پر بات کی ہے انہوں نے اس خط کو رد کر دیا ہے۔
ڈائری

ای پیپر-دی نیشن