بھارت کی طرف سے ”سرحدی خلاف ورزیاں“
ندیم اختر ندیم
شکرگڑھ مقبوضہ کشمیر اور بھارتی پنجاب کے دامن میں واقع ہونے کی وجہ سے قیام پاکستان کے بعد آئے روز بھارتی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا شکار رہا ہے بھارت نے کبھی گولہ باروود سے آگ برسائی تو کبھی آبی جارحیت سے کام لیا شکرگڑھ بھارت اور پاکستان کے مابین اب تک متعددجنگیں ہو چکی ہیں لیکن شکرگڑھ کا سرحدی علاقہ رہتا ہی حالت جنگ میں ہے حالیہ بھارتی فورسز بی ایس ایف کی پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری نے پھر سے خطے کا امن تباہ کر دیا ہے تحصیل شکرگڑھ میں ضیاءدور میں بڑی مائگریشن ہوئی تھی مشرف دور میں تو ایک بار شکرگڑھ ستر فیصد اور دیہات تقریبا سو فیصد خالی ہو چکے تھے شکرگڑھ ہی کے سرحدی علاقے میں ہی بھارتی فورسز بی ایس ایف نے ایک بار ہمارے رینجرز کے جوانوں کو بہانے سے بلا کر شہید کر دیا تھا بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی پر آئے روز کی گولہ باری سے تنگ آئے سرحدی شہری یہاں سے ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں اگرچہ ہمارے شہری دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سینہ سپر ہیں لیکن اپنے بچوں اور خوا تین کو محفوظ مقام پر منتقل کرکے وہ پھر سے اپنے گھروں میں مقیم ہوجاتے ہیں رینجرز دشمن کا منہ توڑ جواب دینے اور اپنے شہریوں کی ہمہ وقت مدد کے لئے دن رات تیار رہتی ہے لیکن ہماری حکومتوں کی جانب سے سرحدی متاثرےن کی بحالی یا امداد تا حال نہ کی جا سکی ہجرت کرنے والوں کی آنکھیں ترس گئیں ، مہاجرین کی عید یں بھی غریب الوطنی میں گذرتی ہیں پھر بھی شہری عید پر بھی اپنے گھر کی دیواروں کی خوشبو کو محسوس کرنے کے لئے کسی بھی خوف سے ماوراءاپنے گھروں میں جا پہنچتے ہیں بھارت نے اپنے لوگوں کو سرحدوں سے پیچھے متبادل جگہ اور دوسرے متعدد ریلیف بھی دے رکھے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے صرف مسائل سے چشم پوشی کی ہے ملک کے شہری علاقوں میں عوامی استحصال تو ہو ہی رہا ہے سرحدوں کے مہاجر بھی حکومتی ستم و تغافل سے محفوظ نہیں رہے بھارتی جارحیت کا شکار سرحدی دیہاتوں کے مکین بھارت کی آئے روز کی گولہ باری اور بلا اشتعال فائرنگ سے اپنے مال مویشی اور جان و مال کے نا قابل تلافی نقصان کے بعد سرحدوں سے محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں نقل مکانی کر تے رہتے ہیں ہجرت کرنے والے محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں مارے مارے پھر تے ہیں کوئی اپنے عزیز و اقارب کیطرف نکل کھڑا ہوتا ہے تو کچھ کرایوں کے مکانوں میں سر چھپانے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں جس سے مہاجرین کو۔ نت نئے مسائل کا سامنا رہتا ہے، احساس کے مارے مہاجرین کو پہلے بھارتی غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر انہیں حکومتی بے حسی اور اپنوں کی بے مروتی درپیش رہتی ہے بتایا جاتا ہے کہ بھارت نے اپنے مذموم عزائم کے لئے اپنے بھارتی مکینوں کو رینج سے باہر متبادل جگہیں دے رکھی ہیں اور رہنے کی دیگر سہولتیں بھی فراہم کی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کی سماعتوں سے سرحدی متاثرین کا دکھ درد نہیں ٹکراتا حالانکہ حکومت سرحدی متاثرین کو پیچھے سنٹرل گورنمنٹ کی جگہوں میں آباد کر سکتی ہے لوگوں کی فصلیں اجڑ جاتی ہیں گھر تباہ ہو جاتے ہیں معصوم شہری خواتین جوان بچے بوڑھے شہید ہوجاتے ہیں جانور بھی ہلاک ہوتے ہیں لیکن حکمرانوں کے احساس کو سرحدی متاثرین کا کوئی دکھ بیدار نہ کر سکا سرحدی دیہات چک بیکا ،ننگل ،کرول،نہالہ چک ،سکمال کوٹھے ،سکمال ،اگور ،بھوپال پور ،سانبلی ،ابیال ڈوگر ،ٹمبر چک ،سمیت دیگر دیہات کے متاثرین نقل مکانی کے ستم اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں سرحدی تاریخی اور بڑا قصبہ چک امرو کی مارکیٹ کے صدر حاجی اختر نے بتایا کہ انہوں نے بارہا انتظامیہ کے اعلی افسران اور سیاستدانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحدوں سے پیچھے سنٹر ل گورنمنٹ کی وسیع وعریض جگہ موجود ہے جہاں سرحدی متاثرین کو آباد کیا جا سکتا ہے لیکن ہنوز کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی پاک فوج اپنے شہریوں کی ہرممکن مدد تو کر تی ہے لیکن حکومتوں کا تغافل سمجھ سے بالا ہے کبھی سیلاب متاثرین اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں تو کبھی سرحدی متاثرین اپنے گھروں کے اجڑنے کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال یا مقامی نمائندے اپنا ضلع و تحصیل ہونے کے سبب سرحدوں تک متاثرین کے دکھ درد میں شریک ہونے پہنچتے ہیں اور حکومت کے بھرپور تعاون کا عزم بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومتوں کی جانب سے ابھی تک با ضابطہ اور باقاعدہ حکومتی سطح پر سرحدی مہاجرین کے لئے ابھی تک کوئی ایس لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا جس سے یہاں کے متاثرین اور مہاجرین کے دکھوں کا مستقل مداوا کیا جا سکے یہاں کے شہریوں کو بھارت کے جنگی جنون کا سامنا ہے بھارتی سکیورٹی فورسز بی ایس ایف جب اچانک بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے تو یہاں ایک جنگ کی سی حالت ہوتی ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز نشانہ بھی شہری آبادی کو بناتی ہے جس سے بے گناہ معصوم شہریوں کی قیمتی جانیں جاتی ہیں معززین علاقہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی جارحیت کی رینج سے باہر سرحدوں سے ذرا ہٹ کر سرحدی مکینوں کو متبادل جگہیں دی جائیں تاکہ وہ بھارتی جارحیت سے محفوظ رہ سکیں۔