افغانستان میں بھارت کا سیاسی کردار ہمارے لئے ریڈ لائن ہے :پاکستان کا امریکہ کو پیغام
اسلام آباد (نیشن رپورٹ) اسلام آباد اور واشنگٹن کے بگڑتے ہوئے تعلقات میں کینیڈین خاندان کی ڈرامائی بازیابی نے مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ پاک سکیورٹی فورسز کی اس اہم کارروائی نے پاکستان اور امریکہ کے بگڑتے ہوئے تعلقات کو نہ صرف بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے بلکہ صدر ٹرمپ سمیت امریکہ کی مرکزی قیادت سے غیر معمولی تحسین و تعریف سمیٹی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ ہفتے اس ڈرامائی بازیابی سے قبل پاکستان اور امریکہ کے حکام کے درمیان افغان پالیسی سمیت کئی اہم امور پر کافی سخت اور مشکل ماحول میں مذاکرات ہوئے تھے، یہ بھی حقیقت ہے کہ جس روز کینیڈین خاندان کو بازیابی کی پاک آرمی نے سرکاری طور پر تصدیق کی اس دن وائٹ ہائوس، امریکی وزارت داخلہ اور دفاع کے حکام پر مشتمل ایک وفد پاکستان میں موجود تھا۔ وفد کی سربراہی صدر ٹرمپ کے ڈپٹی اسسٹنٹ اور نیشنل سکیورٹی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا لیزا کرٹس کررہی تھیں۔ وفد کے ممبران میں قائم مقام امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان اور افغانستان ایلس ویلز، قائم مقام اسسٹنٹ سیکرٹری دفاع اور امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل شامل تھے۔ پاکستانی سینئر اہلکار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مذاکرات گزشتہ برسوں میں ہونے والے تمام مذاکرات سے مختلف تھے، دونوں طرف سے اپنا اپنا مؤقف بڑے واضح اور صاف انداز میں پیش کیا گیا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور اہلکار کا کہنا تھا کہ بات چیت کا انداز اور رویہ یکطرفہ نہ تھا۔ امریکیوں نے اپنے شکوک و شبہات کو پورے زور شور سے پیش کیا تو پاکستانی حکام نے بھی ٹرمپ پالیسی پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا۔ اہلکار نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے امریکی وفد پر واضح کیا کہ امریکہ سے افغانستان کے حوالے سے تعاون کا انحصار اس بات پر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں بھارتی کردار کے تحفظات کو کس طرح وضاحت کرتا ہے۔ پاکستان نے امریکہ پر یہ واضح کیا کہ اگر افغانستان میں بھارت کو سیاسی کردار دیا گیا تو پاکستان افغان مسئلہ پر مزید تعاون اور حمایت نہیں کرے گا۔ اہلکار نے بتایا کہ ہم نے امریکی وفد کو بڑے واشفاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ یہ ہمارے لئے ریڈلائن ہے۔