26ویں آئینی ترمیم‘ قبائل کو اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا حق دینے کے بل قائمہ کمیٹی میں منظور
اسلام آباد (خبر نگار) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے قومی احتساب آرڈیننس 1999ئ، نیب کے ملازمین کی دیگر سویلین ملازمین کی طرح حیثیت کے تعین سے متعلق چاروں بلز پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون کے سپرد کر دیئے ہیں جبکہ وفاقی کابینہ کے اختیارات میں اضافے کی 26 ویں آئینی ترمیم قبائل کو عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں اپیل کا حق دینے کے بلز کی منظوری دے، کمیٹی کی ترمیم کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کی بجائے قبائلی عوام کو مقدمات کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ میں اپیل کا حق مل جائے گا۔ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین چوہدری بشیر ورک کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔صوبائی بار کونسلوں کی نشستوں کے نجی ترمیمی بل کو بھی منظور کر لیا گیا جبکہ حکومتی اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے فاٹا میں لاگو ایف سی آر کی حمایت کرتے ہوئے اسے فوری سستے انصاف کی فراہمی کا طریقہ کار قرار دے دیا۔ قائمہ کمیٹی نے قومی احتساب آرڈیننس 1999ئ، نیب کے ملازمین کی دیگر سویلین ملازمین کی طرح حیثیت کے تعین سے متعلق چاروں بلز پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون کے سپرد کر دیئے ہیں۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کے روزانہ کے سرکاری امور کی ادائیگی میں حائل رکاوٹ دور کرنے کے 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کو منظور کر لیا ہے۔ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کمیٹی کے اجلاس میں واضح کیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی حکومتی خواہش کارفرما نہیں ہے۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل کا یہی تقاضا تھا تاکہ ڈے ٹو ڈے معاملات کی ادائیگی کے لئے کابینہ ارکان کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کمیٹی نے فاٹا تک عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کی وسعت سے متعلق بل کو بھی منظور کر لیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی علی محمد خان نے پشاور ہائیکورٹ کے بجائے اسلام آباد ہائیکورٹ میں قبائلی عوام کو اپیل کا حق دینے پر اعتراض کیا۔ ان کے اعتراض کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مولانامحمد خان شیرانی نے اپنے موقف پر اصرار کیا ہے اور کہا کہ کون نہیں جانتا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے کون ذمہ دار ہیں۔ فاٹا اصلاحات کے معاملے پر سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ حقائق کے منافی ہے۔ فاٹا میں ریگولر لاء سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔ قبائلی کے لیے انصاف کے راستے میں رکاوٹ کیوں کھڑی کی جا رہی ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران عالیہ کامران کے صوبائی بار کونسلوں کی نشستوں میں اضافے کا ترمیمی بل بھی منظور کر لیا گیا۔وزیر قانون نے واضح کیا کہ حکومت نے فاٹا میں رواج اور جرگہ سسٹم کو برقرار رکھنا چاہتی تھی اسی لیے بل لے کر آئے حکومت چاہتی ہے کہ جرگوں کے ذریعے ثالثی اور مصالحت ہو۔کمیٹی کی ترمیم کے تحت فاٹا کے عوام سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ سے انصاف کے حصول کے لئے رجوع کر سکیں گے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایف سی آر کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی آر قبائل کے لئے فوری اور جلد انصاف فراہمی کا طریقہ کار ہے۔ ایف سی آر کو برقرار رہنا چاہیے ریگولر قانون آنے سے قبائلی عوام کی مشکلات بڑھ جائیں گی کمیٹی کے دیگر ارکان نے حکومتی اتحادی جماعت کے موقف کو مسترد کر دیا۔وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے واضح کر دیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون میں ججز اور جرنیلوں کو احتساب کمیشن کے دائرہ کار میں لانے کی کوئی ترمیم زیر غور نہیں ہے اور اس معاملے پر تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ اجلاس کے بعد میڈیا کے استفسار پر کہا کہ ججز جرنیلوں پر مجوزہ احتساب کمیشن ایکٹ کے اطلاق کی ترمیمی زیر غور نہیں ہے اس حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔