• news

افغانستان میں بھرپور آپریشن: بہتر روابط سے دہشت گردوں کو شکست دیں گے: پاک فوج

اسلام آباد+ کرم ایجنسی+ کابل (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) آئی ایس پی آر کے ایک اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ کرم ایجنسی سے ملحقہ واقع افغان صوبوں پکتیا اور خوست میں ریزولوٹ سپورٹ مشن (اتحادی افواج) اور افغان فوج کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف گزشتہ 24گھنٹوں سے زمینی اور فضائی کارروائیاں جاری ہیں جن میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان فضائی کارروائیوں کے دوران کسی موقع پر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ بیان میں بتایا گیا کہ آرمی چیف کے حالیہ دورہ کابل کے تسلسل کے نتیجہ میں پاکستان اور ریزولوٹ سپورٹ مشن کے درمیان روابط میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اتحادی مشن نے افغانستان کے اندر کئے گئے آپریشن کے بارے میں پاکستان کو بروقت اطلاعات فراہم کیں جن کی بنیاد پر اپنی حدود کے اندر پاکستان کی فوج مکمل چوکس ہے۔ بیان کے مطابق افغانستان کے اندر مذکورہ کارروائیوں کے دوران نہ تو پاکستان کی فضائی حدود کی کوئی خلاف ورزی ہوئی اور نہ ہی کرم ایجنسی کے اندر کوئی ڈرون حملہ ہوا‘ اس حوالہ سے میڈیا میں غلط اطلاعات آئی ہیں۔ سکیورٹی کے حوالہ سے دونوں ملکوں کے درمیان بہتر روابط سے دہشت گردوں کو شکست دیں گے۔ دوسری طرف پاک افغان سرحد پر امریکی ڈرون حملے میں سربراہ جماعت الاحرار عمر خالد خراسانی زخمی ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق ڈرون حملہ پاک افغان سرحد کے قریب افغان علاقے پکتیا میں کیا گیا۔ عمر خالد خراسانی عرف عبدالولی کو شدید زخمی حالت میں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ عمر خالد خراسانی کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پکتیا میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ آرمی چیف نے پکتیا میں دہشت گرد حملے میں معصوم قیمتی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف بھرپور عزم سے لڑنے والے افغان ہمارے بہادر بھائی ہیں۔ دونوں ممالک خطے میں پائیدار امن و استحکام کیلئے مشترکہ دشمن کو شکست دیں گے۔ پاک افغان سرحدی علاقے کرم ایجنسی کے قریب امریکی ڈرون حملوں کے بعد افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا میں قائم پولیس ہیڈکوارٹر اور غزنی میں حملے کے نتیجے میں صوبائی پولیس چیف اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت 71 افراد ہلاک اور 250سے زائد زخمی ہوگئے، طالبان نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ جھڑپوں میں درجنوں طالبان بھی مارے گئے ہیں۔ منگل کو افغان اور غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوب مشرقی افغان صوبے پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں قائم پولیس ہیڈکوارٹر پر ہونے والے خود کش حملے اور مسلح جھڑپ کے نتیجے میں صوبائی پولیس چیف سمیت 41افراد ہلاک اور 158 سے زائد زخمی ہوگئے۔ پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ہدایت اللہ حمدانی نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں خواتین، طلبا اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔ ترجمان وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ گردیز میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں پکتیا صوبے کے پولیس چیف طوریالانی عبدیانی بھی ہلاک ہوگئے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا ہے کہ پولیس ہیڈکوارٹر کے گیٹ پر پہلے 2خودکش کار بم حملے کئے گئے جس کے بعد 5مسلح حملہ آور اندر داخل ہوگئے اور فائرنگ شروع کردی پانچ گھنٹے تک پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان جھڑپ جاری رہی جس میں پانچوں حملہ آور مارے گئے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ نے ایک بیان کے ذریعے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ سکیورٹی کے نائب وزیر داخلہ مراد علی مراد کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونیوالوں میں 21پولیس افسراور 20شہری شامل ہیںجبکہ 110شہری اور 48پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ پکتیا گورنر آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس ہیڈکوارٹر میں مارے جانے والے بیشتر شہری اپنے پاسپورٹ اور نیشنل آئی ڈیز حاصل کرنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ دھماکے سے قریب واقع ایک یونیورسٹی کے بھی شیشے ٹو ٹ گئے۔ ادھر صوبہ غزنی میں طالبان کے ساتھ جھڑپ میں 25 سکیورٹی اہلکار اور 5عام شہری ہلاک اور 12زخمی ہوگئے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے پاک افغان سرحد پر ہوئے اور کوئی بھی حملہ ہماری حدود میں نہیں کیا گیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر یقینا کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ ہوگا جسے نشانہ بنانے کے لیے امریکہ ڈرون حملے کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند سال قبل تک ڈرون حملے روزانہ کا معمول تھے جو پاکستانی حدود میں ہوتے تھے لیکن ہم نے گزشتہ 4 برسوں سے جاری فوجی آپریشن کے ذریعے ملک کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے پاک کیا۔ طالبان پر پاکستانی اثر و رسوخ میں کمی کا اعتراف کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک کا اثرو رسوخ بڑھا ہے اور پاکستان کا کم ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ ہمارا دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کیا گیا فوجی آپریشن ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے صرف پاکستان کی ہی انفرادی کوشش نہیں بلکہ افغان حکومت اور امریکا بھی ان سے مسلسل رابطے میں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن