سیریز میں نئے کھلاڑیوں کو بھی مواقع دئیے جائیں
ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں بھی پاکستان نے سری لنکا کو ہرا دیا۔ یہ میچ پہلے میچ کے مقابلے میں خاصا دلچسپ رہا کیونکہ پاکستان کی پہلے بیٹنگ کرنے 101 رنز پر 6 کریم وکٹیں کھو گئی تھیں کہ بابر اعظم اور شاداب خان کے درمیان 109 رنز کی عمدہ پارٹنر شپ دیکھنے کو ملی گو پاکستان کے اندر ابھی تک کوئی انٹرنیشنل ٹیم سیریز کھیلنے پچھلے 8 سالوں میں نہیں آئی پھر بھی پاکستان کو وافر مقدار میں نیا خون مل رہا ہے اور اس نئے خون کی ایک بوند شاداب خان کو کہا جا سکتا ہے۔ جوں جوں شاداب کی جگہ ٹیم میں پکی ہو رہی ہے اس کی پرفارمنس ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ شاداب نے عمدہ بیٹنگ نے عمدہ بیٹنگ سے نہ صرف اپنی نصف سنچری بنائی بلکہ بابر اعظم کے ساتھ عمدہ پارٹنر شپ سے پاکستان کو ہاتھ سے نکلتا میچ جتوا دیا جیسا پہلے لکھتا آ رہا ہوں سری لنکا کے مقابلے پاکستانی ٹیم کھیل کے ہر شعبے میں مضبوط اور ایک میچ مزید جیتنے سے پاکستان یہ سیریز جیت جائے گا اور ون ڈے رینکنگ میں پاکستان کی پوزیشن اور اوپر آ جائے گی۔ بابر اعظم نے 33 ون ڈے اننگ میں 7 سنچریاں بنا کر ہاشم آملہ 41اننگ میں سات سنچریوں کا ریکارڈ توڑ دیا جو بہت بڑی پرفارمنس ہے پاکستانی سلیکٹروں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ون ڈے کرکٹ میں بابر اعظم ون ڈاﺅن جا کر رنز کے ڈھیر لگا رہے ہیں تو کیا ہی بہتر ہو کہ بابر اعظم کو ٹیسٹ میچوں میں بھی ون ڈاﺅن بھیجا جائے۔ کرکٹ بہت ٹیکنیکل کھیل ہے صرف ایک نمبر پر بیٹنگ سے بیٹسمین کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں کیونکہ ذہنی طور پر بابر اعظم نمبر 3 پر اپنے آپ کو فٹ سمجھتے ہیں اور اگر انہیں ٹیسٹ میچوں میں بھی نمبر 3 پر بھیجا جائے تو ٹیسٹ کرکٹ میں بھی وہ اچھی پرفارمنس دے سکتے ہیں ان کے نمبر کو بار بار تبدیل کرکے تباہ نہ کیا جائے۔ میری دوبئی میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ منیجر کپتان کوچ سے گزارش ہے کہ جونہی پاکستان سری لنکا سے موجودہ سیریز جیت لے تو بقیہ میچوں میں باہر بیٹھے کھلاڑیوں کو بھی مواقع دئیے جائیں۔ پاکستان میں بہت ٹیلنٹ ہے مگر کسی کو بھی مواقع نہیں دئیے جاتے۔ سینکڑوں کھلاڑی اپنی محنت سے پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کے معیار پر پہنچ جاتے ہیں مگر ہمارے سلیکٹر جرات نہیں کرتے کہ ایک ایک کرکے نئے لڑکوں کو آزمایا جائے جو کھلاڑی ون ڈے ٹیسٹ کرکٹ کے معیار تک پہنچ جاتا ہے جرات نکال کر اسے موقع دینا چاہئے۔ سینکڑوں ہمارے نئے ٹیلنٹ کو موقع نہ دے کر ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس لئے ہر دورے پر تین چار کھلاڑی ابھرتے ہیں مگر موقع نہ ملنے سے اگلے ٹور پر نئی کھیپ آجاتی ہے ایسا کرنے سے سینئر کھلاڑیوں کے سر پر ٹیم سے باہر ہونے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے جو ضروری ہے۔