اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ ہے‘ پولیس کو تھپڑ کھانے سے فرصت نہیں کیا کام کیا کرے گی: عدالت عظمیٰ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز پر درختوں کی کٹائی و سٹون کرشنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے لیز پر دی جانے والی اراضیوں کا ریکارڈ، ماتحت عدالتوں میں جنگلات کے کیس کی تفصیلات جبکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2نومبر تک ملتوی کردی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مارگلہ ہلز کے بفرزون ڈیکلیئر ہونے سے متعلق ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سب کو پتہ، پورے شہر کو نظر آرہا ہے مگر سی ڈی اے کو کچھ نظر نہیں آرہا عدالت سی ڈی اے سے استفسار نہ کرے تو کس سے پوچھے؟ عدالت معاملے کی انکوائری ایف آئی اے سے کرائے گی، کیونکہ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ملزمان کے لئے کافی جگہ خالی پڑی ہے، ملوث ذمہ داروں کو وہاں بھیجا جائے گا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس کو تو تھپڑ کھانے سے فرصت نہیں مل رہی وہ کام کیا کرے گی، پولیس عدالت میں کھڑے ہوکر جھوٹ بولتی ہے کہا جاتا کہ کہیں کوئی غیرقانونی کام نہیں ہو رہا نہ پولیس کو درختوں کی کٹائی نظر آتی ہے نہ سٹون کریشنگ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی، سیکرٹری کیڈ، آئی جی پنجاب اور میئر اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ مارگلہ ہلزکے بفرزون ہے مگر سی ڈی اے کو مارگلہ ہلز پر ہونے والے غیرقانونی اقدامات نظر ہی نہیں آرہے، کیوں نا معاملے کی انکوائری ایف آئی اے سے کروائی جائے۔ دوران سماعت سی ڈی اے کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ پہلے معاملے میں ملوث ذمہ داران کا تعین ہونا چاہئے اور تعمیرات ہونے نہ ہونے سے متعلق تسلی کر لینی چاہئے ، جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ معاملے میں سی ڈی اے ، پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر بفرزون میں تعمیرات کا الزام ہے ، پلاٹ برائے فروخت کے بل بورڈزکی تصاویر موجود ہیں۔ انہوں نے سی ڈی اے کے ڈائریکٹر پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ سی ڈی اے کہتا ہے مارگلہ کی پہاڑیاں ان کی ذمہ داری نہیں توکیا اٹلی اور جرمنی سے پوچھیں کہ اسلام آباد کی ذمہ داری کس کی ہے ڈائریکٹرسی ڈی اے نے کہا مارگلہ ہل کی ذمہ داری سی ڈی اے کی ہے اور اقدامات بھی کئے گئے ہیں ۔ جسٹس عظمت سعید نے جواب کومسترد کردیا اگر تصاویر میں موجود گھروں سے متعلق پوچھ لیا تومشکلات ہونگی، جسٹس شیخ عظمت سعید نے مزید ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے سی ڈی اے نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، قانون کہتا ہے کرشنگ نہیں ہو سکتی لیکن یہاں سے چند میل کے فاصلے پر کرشنگ ہو رہی ہے،اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو سارے ملک کا کیا حال ہو گا، ہم نے قومی ورثے کو بچانا ہے، سی ڈی اے کہہ دے انکے بس کی بات نہیں، سی ڈی اے مارگلہ کی پہاڑیوں کو ٹھیکے پر دے دے، مال غنیمت نہیں ہے جس کا جو دل چاہے کرتا پھرے، سی ڈی اے افسران سے کام نہیں ہوتا تو آبپارہ میں دوکان ڈال لیں،کوئی غلط فہمی میں نا رہے ہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد کروانا جانتے ہیں، عدالت نے سی ڈی اے سے متعلق کیس کی سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سیکرٹری مائیننگ نے آبادی سے ملحقہ بلاکس کو لیز پر دینے سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کیوں نہ عدالت چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو عدالت طلب کرے لے۔ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ چیف سیکرٹری پنجاب عدالت میں موجود ہیں۔ لیز ودیگر سے متعلق عدالتی استفسار پر چیف سیکرٹری نے مہلت کی استدعا کی، عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے لیز پر دی گئی اراضی اور فیصلہ کا اصل ریکارڈ طلب کرلیا ، عدالتی استفسار پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ اینٹی کرپشن کا آفس فرید کوٹ لاہور میں ہے ، بعدازاں عدالت نے مذکورہ حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 2 نومبر تک ملتوی کردی ہے۔