18 اکتوبر: جرات و بہادری کا دن
خصوصی رپورٹ: الطاف احمد خان مجاہد
18 اکتوبر پاکستان کی جمہوری جدوجہد کا اہم دن ہے۔ 86ءکی طرح جب بےنظیر بھٹو ضیاءدور میں جلاوطن کے خاتمے پر پاکستان پہنچی تھیں 2007ءمیں بھی ان کا کراچی پہنچنے پر استقبال تاریخی تھا۔ لاکھوں افراد شارع فیصل پر جس کا پرانا نام ڈرگ روڈ ہے جمع تھے۔ ایئرپورٹ ناتھا خان گوٹھ‘ کالونی گیٹ‘ ڈرگ روڈ سٹیشن‘ پی اے ایف‘ مزار جمن شاہ اور کارساز پہنچتے پہنچتے یہ مجمع پرجوش ہوچکا تھا۔ بھٹو کے نعرے گونج رہے تھے کہ کارساز کے مقام پر ایک دھماکے نے 177 افراد کی جان لے لی‘ سینکڑوں زخمی ہوئے‘ بکھرے ہوئے لاشے‘ گونجتی چیخیں‘ مدد کو پکارتے سیاسی کارکن ایک روح فرسا منظر تھا‘ زخمیوں اور جاں بحق افراد میں میڈیا کے کارکن بھی شریک تھے۔ جانثاراں بےنظیر نے خود کو قربان کرکے اپنی قائد کو بچا لیا۔ خود قائد کی بھی بہادری اور جرا¿ت مندی یہ تھی کہ اگلی صبح وہ بلاول ہاﺅس سے زخمیوں کی عیادت کو پہنچیں۔ لیاری کا دورہ کیا اور حضرت دولہا شاہ محمد سبزواری کے مزار پر حاضری دی۔فاتحہ خوانی کی اس لئے کہ حادثے کے بعد ان کا دل اپنے کارکنوں کے افسردہ اور بے چین تھا اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ 1983ءمیں بھی وہ شہدائے ایم آر ڈی کے عزیزوں کو پرسہ دینے ان کے گھروں پر گئی تھیں‘ جیالے ہی نہیں سندھ کے عام باشندے بھی انہیں ملیر کی ماروی ایسے ہی نہیں کہتے تھے‘ عمر سومرو کی قید میں ماروی نے جس طرح اپنے گاﺅں بھالوا‘ تھر کے صحرا اور عزیزواقارب کو یاد کیا تھا اسی طرح بےنظیر بھی دھرتی سے وفا کے اس سبق پر کاربند رہیں جو ان کے والد نے زندگی کے آخری دنوں میں دیا تھا کہ عوام سے تعلق جوڑے رکھنا وہ ہی تمہارا اثاثہ اور محافظ ثابت ہوں گے اور اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد 38 برس گزر چکے ہیں لیکن سیاست اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو نعروں پر ہی استوار ہے ۔وہ نڈر اور جرا¿ت مند خاتون تھیں اس حملے سے نہ ڈریں‘ سینہ سپر رہیں اور سینکڑوں شہادتوں کے بعد جمہوری قافلہ ٹھہرا یا رکا نہیں بلکہ ڈٹا رہا نتیجتاً اسی برس 27 دسمبر کو ایک اور سانحہ ہوا جس میںاس بار وہ خود نشانہ بن گئیں۔ ظلم‘ جبر‘ تشدد‘ دھونس اور دھمکیاں اسے نہ ڈرا سکیں کہ اس کا وژن بلند اور تعلق عوام سے تھا ان لوگوں سے جو اسے اپنے درد کا درمان اور دکھوںکا مداوا جانتے تھے۔ 18 اکتوبر کے حملے کے بعد بی بی نے جسے سندھ کے باشندے اب شہید رانی پکارتے ہیں لاڑکانہ جاکر شہداءکے مزار پر حاضری دی اس سانحے میں جاں بحق ان افراد کو جن کی شناخت نہیں ہوسکی تھی ”بھٹو“ کا نام دیا گیا اور لاڑکانہ کی گڑھی خدا بخش میں سپردخاک کیا گیا۔ ان کی قبروں پر نصب کتبے ”میں بھٹو ہوں“ کی تحریر سے جگمگا رہے ہیں۔
شہید رانی نے ان شہداءکو اپنا بھائی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے بتایا تھا جو جمہوری جدوجہد میں جاں بحق ہوئے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کہا تھا سولی یا پھانسی سرفروشوں کو ہمیشہ تابندہ رکھتی ہے‘ سندھ کے باشندے لطیف‘ قلندر اور سچل کے افکار سے توانائی حاصل کرتے ہیں‘ کٹھن وقت ان بزرگوں کا نظریہ اور فلسفہ رہنمائی کرتا ہے‘ بھٹائی ہی کا درس ہے ،ترجمہ اشعار: موسم کی سختی کو راہ میں مت لا‘ یہ سستانے کا وقت نہیں، دن ڈھل رہا ہے اور جھٹ پٹے کا وقت ہے جلدی بڑھو ورنہ محبوب کے نقش پا مدھم پڑ جائیں گے اور منزل کی راہ کھوٹی ہوجائے گی۔
سندھ کی جمہوری قوتوں نے ہمیشہ شاہ لطیف کے افکار کی پاسداری میں پھانسی کے پھندے پر جھول جانا قبول کیا۔ پیرپگاڑا شہید نے انگریز آقاﺅں کی اطاعت نہ کی جان دے دی ،پون صدی گزر گئی کوئی اپنے رہبر کے مزار کی جگہ تک سے واقف نہیں۔ جہاں جاکر 20 مارچ کو یوم شہادت منایا جاسکے۔ عوام دشمن چاہتے تھے کہ 18 اکتوبر کے دھماکے سے خوفزدہ کرکے بےنظیر بھٹو کو واپس لندن یا دبئی بھیجا جائے لیکن انہوں نے جرا¿ت مندی اور استقامت کا ثبوت دیا اور آمریت پر کاری ضرب لگائی اور اپنے لہو سے وہ چراغ روشن کئے جو جمہوریت کو تقویت بخش گئے۔
18 اکتوبر کو بم دھماکے کے بعد فضا سوگوار تھی لیکن محترمہ بےنظیر بھٹو نے اگلے روز جناح ہسپتال میں زخمیوں‘ لیاری میں شہداءکے ورثاءاور مزار بخاری پر حاضری دے کر جمہوریت دشمن قوتوں کو پیغام دیا کہ انہیں عوام سے محبت ہے وہ ایسے حملوں سے خوفزدہ نہیں اور جو جذبہ‘ لگن اور عشق انہیں اس دھرتی سے ہے وہ انہیں عوام سے دور نہیں رکھ سکتا۔ تھر کی ماروی کی طرح بےنظیر نے ثابت کیا کہ تاریخ میں حب الوطنی کا کردار معدوم نہیں ہوا
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘ ادھر ڈوبے ادھر نکلے
بےنظیر بھٹو پنڈی کی سڑک پر نشانہ بنیں لیکن آج بھی پولیٹیکل فورسز کیلئے ان کی جدوجہد مشعل راہ ہے۔ وہ قرآن پاک کے سائے اور امام ضامن کی خوشبو میں کراچی ایئرپورٹ پر اتری تھیںتو ان کی مسکراہٹ لاکھوں دلوں کو گرما گئی تھی۔ شدت جذبات سے تمتماتا ان کا چہرہ‘ راستے بھر پرجوش خطاب اور ٹرک پر موجود احباب سے گفتگو پتہ دیتی تھی کہ وہ خطرات سے آگاہ ہیں، لیکن عوام کے ساتھ جینا چاہتی ہیں۔ ان کا حوصلہ سودوزیاں سے بلند تھا۔ کراچی ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عوام تبدیلی چاہتے ہیں میں عوام کی توقعات پر پورا اتروں گی‘ عام آدمی کی تکلیف میری تکلیف ہے میں ان کے دکھ درد اور پریشانیوں سے آگاہ ہوں۔ دوسرے ملکوں میں بھی اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن اس کا مقصد یا مطلب ہرگز نہیں کہ اسلحہ اٹھا لیا جائے۔ قومی مفاہمت اور پرامن سیاسی ماحول کی ضرورت ہے تمام سیاسی قوتوں میں ایک برداشت ہونی چاہئے ہم انتقام پر یقین نہیں رکھتے۔
کراچی ایئرپورٹ پر اترتے ہی ان کے الفاظ تھے ”میں نے اسی دن کیلئے ایک طویل انتظار کیا ہے وہ آئیںاور چھا گئیں پھر جان قربان کردی لیکن تاریخ کے صفحات پر ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،