• news
  • image

ٹکراو کی پالیسی سے اجتناب کی ضرورت

att301/se04
برائے قومی افق۔۔۔۔
فیصل آباد ۔۔ احمد کمال نظامی
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ تبدیلی نعرو ں سے نہیں عمل سے آتی ہے ‘ الزامات کی سیاست نہ پہلے کامیاب تھی نہ اب کامیاب ہے ‘ اسی طرح کے خیالات کا اظہار حمزہ شہباز شریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو نقصان ہوا تو ہم اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکیں گے ۔ حمزہ شہباز نے تقریباً ڈیڑھ دو ماہ کے بعد سیاسی انٹری دی ہے، ایک تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے والد میاں محمد شہباز شریف کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ فو ج‘رینجر اور پولیس سے پیار ہے ‘ اداروں سے ٹکراﺅ کی سیاست نقصان دہ ہے ۔ اس دوران جب مریم نواز لاہور میں این اے 120کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد حلقہ کا دورہ کرر ہی ہیں ، انکی اور حمزہ شہباز شریف کی طویل عرصہ کے بعد میاں محمد شہباز شریف کی رہائشگاہ پر ملاقات ہوئی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ چھ ماہ کے بعد حمزہ شہباز ‘مریم نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے مابین باقاعدہ ملاقات تھی ‘ مریم نواز نے کہا ہے کہ ہمارے خاندان کے درمیان دراڑے ڈالنے والے ناکام ہو نگے ‘ انکل شہباز شریف کو سلام کرنے گئی تھی ‘ حمزہ اور سلمان سے اچھی گپ شپ ہوئی ہوئی ہے۔ عوام سازشیوں کی سیاست کو دفن کر دینگے اور 2018ءمیں بھی مسلم لیگ (ن) کامیاب ہو گی۔خیال کیا جا رہا ہے کہ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے درمیان جو طویل عرصہ سے اختلافات کی خبریں آ رہی تھیں ان کے بعد ذرائع کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے میاں محمد شہباز شریف کے ذریعے دونوں کو ایک ٹیبل پر بیٹھا کر اختلافات کو ختم کروا دیا ہے۔ میاں محمد شہباز شریف کی پہلے سے یہ رائے رہی ہے کہ اداروں کے مابین ٹکراﺅ کی پالیسی کسی صورت بھی مناسب نہیں اور اسے ختم ہونا چاہیے ‘ یہ ملاقات اسی کی ایک کڑی ہے اور حمزہ شہباز شریف کی تقریر میں بھی اس کی جھلک نظر آ ئی۔شہباز شریف نے مریم نواز کو بھی بہت حد تک قائل کر لیا ہے ‘ مسلم لیگ (ن) کے سنجیدہ حلقے عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کی ٹیم کے دو تین ارکان ایسے ہیں جو کہ میڈیا ٹاک ‘ تقریروں اور بیانات کے ذریعے اداروں کے ساتھ سخت زبان استعمال کرکے ٹکراﺅ کی پالیسی پر گامزن ہیں جس کا نقصان نہ صرف میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز کو ہو رہا ہے مسلم لیگ (ن) کبھی بھی ٹکراﺅ اور گھیراﺅ جلاﺅ والی جماعت نہیں رہی ۔
یہ سوچنے سمجھنے کی بات ہے ‘ یہ جو بحث ملک میں اس وقت چل رہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی خوش آئندہ اور ملک کے مفاد میں ہے کہ ٹکراﺅ کی پالیسی کو ختم ہونا چاہیے ‘اور شہباز شریف نے جس طرح کہا ہے کہ ملک کسی طور پر افرا تفری ‘ خلفشار ‘ انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی صاف کہا ہے کہ تبدیلی آئینی ہو چاہیے ‘ وگرنہ ملک کا نقصان ہو گا ‘ آئین میں کسی ٹینکو کریٹ اور غیر آئینی حکومت کی گنجائش نہیں ‘ سول ملٹری تناﺅ نہیں اختلافات ہر گھر میں ہو تا ہے ‘ اچھی بات ہے کہ فوج کے ترجمان نے پبلک فورم پر بات کی ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کے مطابق کام ہو گا نہ مارشل لاءآئے گا نہ ٹینکو کریٹ حکومت بنے گی ‘ آرمی چیف کو معیشت پر رائے دینے کا حق ہے مجھے گلاس ہمیشہ آدھا بھرا نظر آیا ‘ عوام نے وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ نہیں مانا ‘ تاریخ فیصلہ کریگی کہ میاں نواز شریف کو کیوں نکالا ۔ایسے ہی خیالات کا اظہار وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کے کیساتھ ہم آہنگی کی ضرورت ہے ‘ پاک فوج کے ترجمان کی وضاحت سے معاملہ ختم ہو گیا ہے ‘ہم سب ایک کشتی میں سوار ہیں ‘ حکومت فوج کے پشت پر ‘اور فوج حکومت کی پشت پر کھڑی ہے ‘ اداروں کی مضبوطی ہی میں ملک کی مضبوطی ہے ۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پہلے ہی وزراءکو اداروں کے خلاف بیانات سے روک چکے ہیں ۔مسلح افواج دراصل دفاع وطن کا ایک ایسا ادارہ ہے جس پر پوری قوم کو ناز ہے ‘ میں سمجھتا ہوں کہ فوج کے کردار پر ہمارے سیاستدانوں کو انگلی نہیں اٹھانی چاہیے۔ جہاں تک فوجی آمروں کے کردار کا تعلق ہے یقینا انہوں نے اپنے آئین اور حلف کی خلاف ورزی کی اور ملک میں مارشلاﺅں کے ذریعے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور ان کے یہی غیر آئینی اقدام کے نتیجہ میں ہماری محب وطن پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ صدر ایوب خاں ‘ یحییٰ خان ‘ سکندر مرزا‘ جنرل ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے مارشل لاﺅں کا دور یقینا آمرانہ حکومتوں کا دور تھا ‘اور ج جنرل پرویز مشرف کا کردار ایک ایسا کردار ہے جو تاریخ کا سیاہ باب ہے اور یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف سابقہ آرمی چیف ہونے کے باوجود عدالتوں کے بھگوڑے اور آرٹیکل 6کے قومی مجرم ہیں ۔ پاک فوج کے ترجمان با ربار یہ کہہ رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے بیانات فوج کے رائے نہیں ہے ‘ وہ ریٹائرڈ ہیں اور عام شہری ہیں ‘ فوج کی پالیسی اور خیالات آرمی چیف کی طرف سے جاری ہونے والے خیالات اور بیانات ہیں ۔یہی صورت حال عوامی مسلم لیگ کے قائد شیخ رشید اور سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف کے رہنما و ترجمان کے ساتھ ہے ۔اپنے بیانات کے ذریعے گویا وہ اعلیٰ عدلیہ او ر پاک فوج کے ترجمان بن بیٹھے ہیں۔ اس پر بھی پاک فوج کے ترجمان اور سینئر ریٹائرڈ فوجی افسران بار بار کہہ چکے ہیں ان حضرات کا پاک فوج کے پالیسی بیانات سے کوئی تعلق نہیں ۔ملک کے عوام کی یہ رائے ہے کہ ایسے خود ساختہ ترجمانوں کے بیانات پر پاک فوج اور عدلیہ کو نوٹس لینا چاہیے ‘ تاکہ ایسے بیانات جاری نہ ہو سکیں جن سے اداروں کی پوزیشن پر کچھ عناصر اپنی رائے اور مرضی کے مطابق بیان داغ کر متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب وویمن ججز کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے عدالتیں ہر شہری کو فوری اور معیاری انصاف فراہم کرنے کی پابند ہیں ‘ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک اور تاریخی حقیقت بیان کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ انصاف میں عجلت انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے اور کسی جج کو قانون کی بجائے اپنی مرضی کے فیصلے دینے کا اختیار نہیں ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے انصاف کے حوالہ سے جس قدر بھی باتیں کیں وہ سب اپنی جگہ درست ہیں ویسے بھی انصاف ہی نہیں کسی بھی کام میں جلد بازی کے نتائج کبھی مثبت برآمد نہیں ہوتے ۔
ملکی معاملات بلا شبہ اداروں کے اشتراک عمل سے ہی چلتے ہیں ‘ اور فوج تمام معاملات میں منتخب حکومت کے فیصلے کی پابندی کر تی ہے۔آج پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہو رہی کہ ایک منتخب نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور دوسری منتخب حکومت بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے جس کیلئے ہم سب کو برداشت کے ساتھ اپنی اپنی منزل پر نگاہ رکھنا ہو گی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن