ریاض پیرزادہ کے بیان نے مسلم لیگ نون میں دھڑے بندی کا اشارہ دیدیا
لاہور (نیشن رپورٹ / ساجد ضیا) وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ کے بیان کے بعد مبصرین نے اگلے چند ہفتوں کو ملکی سیاسی ماحول کیلئے انتہائی اہم اور فیصلہ کن قرار دیا ہے۔ نواز شریف کی جگہ پر شہباز شریف کو پارٹی قیادت سنبھالنے کے بیان پر پارٹی کے اندر سے جس مخالفت کی توقع کی جارہی تھی اس قدر دیکھنے میں نہیں آئی۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر، وفاقی وزیر برجیس طاہر اور چند دیگر ارکان نے ریاض پیرزادہ کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ ا س بیان کے بعد ظاہراً حالات بڑے پرسکون نظر آرہے ہیں مگر مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی بقا اور حکومت کے استحکام کو شدید خطرات لاحق نظر آرہے ہیں۔ صورتحال اس وقت غیر واضح ہے، آئندہ چند ہفتوں میں حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں اس بارے میں کوئی واضح صورتحال دکھائی نہیں دے رہی۔ مبصرین نے ریاض پیرزادہ کے بیان کو بڑا اہم قرار دیا ہے کیونکہ پیرزادہ نے پارٹی قیادت کیلئے شہباز شریف کا نام دیکر بڑی سمجھداری کا ثبوت دیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پارٹی میں نواز شریف کے بعد سب سے زیادہ اہمیت شہباز شریف کی ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف کو معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ شہباز شریف ہمیشہ مصالحت اور عدم ٹکراﺅ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ پارٹی کو انتشار سے بچانے کیلئے اس وقت شہباز شریف سے زیادہ موزوں اور کوئی نہیں ہے۔ پارٹی کے اندر ایک گروپ ایسا بھی ہے جو حالات کو ٹکراﺅ کی طرف لے جانے سے گریز کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس گروپ کا خیال ہے کہ پارٹی کی حکومت کو ہر حال میں اپنی مدت پوری کرنا چاہئے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ آئندہ مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں حاصل ہوگا۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) کو ایوان بالا میں اکثریت حاصل ہو جائیگی۔ گروپ کے مطابق اگر عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا جائے تو ایوان بالا میں کامیابی کی منزل کو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق پیرزادہ نے شہباز شریف کا نام شاید اسلئے بھی پیش کیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نااہلی کے وقت پارٹی قیادت کیلئے شہباز شریف کا انتخاب کرنے کا فیصلہ ہوا تھا تاہم اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ ریاض پیرزادہ کے بیان کو وزرا سمیت ایک خاص بڑی تعداد نے قبول بھی کیا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پارٹی ارکان کی ایک بڑی تعداد کے بارے میں یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کو قیادت سے ہٹانے کے حق میں ہے۔ ایک رکن اسمبلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ہمیں ایک کونے سے لگا دیا گیا ہے۔ وہ کسی کیلئے قربانی کا بکرا بننے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے واضح کہا کہ پارٹی قیادت کیلئے شہباز شریف بہترین چوائس ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سوچ کے حامل گروپ کا ایم پی اے شوکت علی لالیکا کی رہائش پر اجلاس بھی منعقد ہوا ہے۔ اگرچہ راجہ اشفاق سرور کو حج سے واپسی پر خوش آمدید کہنے کیلئے جمع ہونے کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔ مبصرین کے مطابق ریاض پیرزادہ نے اپنے بیان میں پارٹی قیادت کی تبدیلی کو حالات کی مجبوری سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ایک نااہل شخص کا پارٹی سربراہ ہونا کسی بھی صورت پارٹی کے مفاد میں نہیں ہے، اس سے پارٹی کو بے حد نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کہنے کو تو یہ بیان پارٹی کی بقا کیلئے اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو کون ہے جو یہ جرا¿ت کرے کہ نواز شریف کو پارٹی قیادت چھوڑنے کا مشورہ دے اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پارٹی سربراہ بنادے۔
بیان