مخالفانہ سیاسی نقطہ نظر کو دبانا قابل مذمت ہے : نوازشریف
اسلام آباد (خبرنگار خصو صی+عمران مختار/ دی نیشن رپورٹ) وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے خلاف سپریم کورٹ کے ججوں اور فوج کے خلاف ٹوئٹر پر قابلِ اعتراض اور متنازع مواد شائع کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کر کے ان میں سے ایک ملزم کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔راولپنڈی کی ریلوے کیرج فیکٹری کالونی کے رہائشی انور عادل اور واجد رسول نامی اشخاص ٹوئٹر پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان، افواجِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان وغیرہ کے بارے میں غیرقانونی طریقے سے بدنیتی پر مبنی معلومات پھیلا رہے تھے۔ایف آئی آر کے مطابق ایسی معلومات سے نہ صرف عوام میں بے چینی پھیلنے کا اندیشہ تھا بلکہ یہ اداروں کے خلاف اکسانے اور نفرت پھیلانے کے مترادف بھی ہیں۔اسی وجہ سے ان افراد کیخلاف 2016ءکے سائبر کرائم ایکٹ کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے مقدمہ درج کر کے انور عادل تنولی کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ انور عادل تنولی کا شمار سماجی روابط کی ویب سائٹس پر پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہمدردوں میں ہوتا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔19 اکتوبر سے ان کے غائب ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر سماجی کارکن اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے کارکن مسلسل اس بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے تھے تاہم مسلم لیگی قیادت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی بیان یا ٹویٹ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔خیال رہے کہ گذشتہ برس پاکستان میں سائبر کرائم قوانین کے نفاذ کے بعد سوشل میڈیا پر 'قابلِ اعتراض' مواد شائع کرنے کے الزام میں اب تک متعدد افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ صباح نیوز کے مطابق ادارے کے سائبر کرائمز ونگ نے راولپنڈی سے انور عادل اور واجد رسول ملک کو گرفتار کیا اور تفتیش کیلئے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ ایف آئی آر ابرار احمد کی درخواست پر درج کی گئی۔ دریںاثناءآئی این پی کے مطابق گرفتار ملزم کے خلاف دہشت گردی کی دفعات 9-10 اے واپس لے لی گئیں۔ ملزم کی پچاس ہزار روپے کے مچلکے کے عوض رہائی کا حکم دیدیا گیا۔ ہفتہ کو سینئر سول جج محمدبشیر نے ملزم کی رہائی کا حکم دیا، تفتیشی افسر محمدرضا نے دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کی درخواست عدالت میں پیش کی۔ سوشل میڈیا پر اظہار رائے پر مسلم لیگ ن کے کارکنوں پر مقدمے کے بعد وزارت داخلہ نے اس بات کی تحقیقات شروع کردی ہے کہ مقدمات درج کرنے اور گرفتاریوں کے احکامات کس نے دیئے ہیں۔ یہ احکامات سابق وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے لوگوں کی گمشدگی کے بعد دیا گیا ہے اور کہا ہے کہ گرفتاریاں ناقابل قبول ہیں۔ احسن اقبال نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کا ایکشن دہشت گردوں اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف لیا جاتا ہے جو سوشل میڈیا پر اشتعال پھیلاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے وزارت داخلہ کے ماتحت ہے جبکہ وزیر داخلہ کو پتہ نہیں کہ گرفتاریوں کا حکم کس نے دیا ہے۔ وزارت داخلہ نے لوگوں کی گمشدگی پر کوئی سرکاری ردعمل بھی ظاہر نہیں کیا۔ واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن کے حامی اور ان کے مخالف ایک دوسرے پر اور فوج پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بلاگرز کی گمشدگی کے واقعات ہوئے تھے جس کا اس وقت کے وزیر داخلہ نے نوٹس لیا تھا۔
لاہور/ لندن (خصوصی رپورٹر+ نمائندہ خصوصی) سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ مخالفانہ سیاسی نقطہ نظر کو جبراً دبانا قابل مذمت ہے، سوشل میڈیا سمیت آزادی اظہار رائے کا احترام اور تحفظ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، وزارت داخلہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لے اور گمشدہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے۔ ہفتہ کو سابق وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کے موقف کی حمایت کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کی گمشدگی اور انہیں ہراساں کرنے کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی رائے پر حملہ قرار دیا۔ نواز شریف نے کہا کہ ملکی قانون، شائستگی اور اپنی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار یا کسی دوسرے کی رائے سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا سمیت، آزادی اظہار رائے کا احترام اور تحفظ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، مخالفانہ سیاسی نقطہ نظر کو جبرا دبانا قابل مذمت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں آزادی اظہار رائے کے حق پر پختہ یقین رکھتا ہوں لہٰذا وزارت داخلہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لے اور گمشدہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے۔