• news

سینٹ : نااہل شخص پارٹی عہدیدار نہیں بن سکے گا‘ ترمیمی بل منظور‘ حکومت کو شکست

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) سینٹ نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مجلس شوری کی رکنیت کیلئے نااہل قرار دیئے جانے والے فرد کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار یا سربراہ بننے کیلئے نااہل کرنے کے بارے میں انتخابات کے قانون میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی کے سینیٹر نے بل کی مخالفت کی۔ چیئرمین سینٹ نے بل کی منظوری‘ شق وار غور سمیت 4 مختلف اوقات میں بل پر گنتی کرائی اور ہر بار حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے سینٹ نے اس سے قبل انتخابات کے بارے میں بل میں ایک ترمیم جسے بعدازاں قومی اسمبلی نے بھی منظور کیا تھا منظور کی تھی جس کے تحت عدلیہ سے نااہل قرار پائے جانے والے شخص کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار تعینات کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی ترمیم کے باعث سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ گزشتہ روز سینٹ میں سینیٹر شبلی فراز‘ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق‘ ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا‘ پی پی پی کے سلیم مانڈوی والا‘ محسن عزیز‘ مختیار احمد دھامرہ‘ نعمان وزیر خٹک‘ لیاقت خان ترکئی اور متعدد دوسرے سینیٹرز کی طرف سے انتخابات کے قانون میں ترمیم کا بل پیش کیا۔ چیئرمین نے بل پیش کرنے کی تحریک پر رائے شماری کرائی۔ تحریک کے حق میں 46 اور مخالفت میں 21 ووٹ آئے۔ جس پر چیئرمین نے بل پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ پی پی پی‘ تحریک انصاف‘ ق لیگ، جماعت اسلامی‘ ایم کیو ایم نے بل کی حمایت کی۔ بعدازاں اپوزیشن ارکان نے مطالبہ کیا رولز معطل کر کے بل کو فوری طور پر زیرغور لایا جائے اور اس کی منظوری دی جائے۔ چیئرمین نے کہا روایت ہے بل سٹینڈنگ کمیٹی کو جاتا ہے۔ اپوزیشن سینیٹرز نے م¶قف اختیار کیا ایوان کی رائے لی جائے۔ سینیٹر تاج حیدر نے رولز معطل کرنے کی تحریک پیش کی۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے اس کی مخالفت کی اور کہا کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ جلدی کس بات کی ہے۔ ایکٹ کو اس طرح منظور کرنا غیرضروری ہے۔ یہ ”بلڈوزنگ“ ہے۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا یہ عجیب روایت ہے۔ ہا¶س کی روایت کو تھوڑا جا رہا ہے۔ یہ ایوان کے وقار کے منافی ہے۔ بچگانہ حرکت ہے۔ جلدی نہ کی جائے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا افسوس ہے یہ باتیں کی جا رہی ہیں۔ وہ من مانی نہیں تھی جب سیکشن 203 کے حق میں ووٹ آیا تھا۔ بعدازاں سینیٹر تاج حیدر نے قواعد معطل کرنے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے 23 کے مقابلہ میں 47 سے منظوری دیدی۔ بعدازاں ترمیمی بل پیش کر دیا گیا۔ اس کی شق وار منظوری کے موقع پر بھی گنتی کرائی گئی اور اپوزیشن کو کامیابی ملی۔ بل کی مکمل منظوری کے مرحلہ پر بل کے حق میں 49 اور مخالفت میں 18 ووٹ آئے۔ اعظم سواتی نے کہا سینٹ کی تاریخ میں نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک شخص کو نااہل قرار دیا تھا۔ سینٹ پر بدنما داغ تھا۔ جمہوریت ایک شخص کے نام سے نہیں چلتی۔ آج جو ہمارے آئین پارلیمان اور جمہوریت کی فتح ہے۔ جنہوں نے حق میں ووٹ دیا انہوں نے جمہوریت کی پاسداری کو ووٹ دیا ہے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا مشرف کے قانون کو خوش کر کے ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو زخمی کیا۔ ضمیر کہاں تھا جب دونوں ایوانوں کی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ 2 سال کمیٹی کے پاس رہا کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ مشاہد اﷲ خان نے کہا محمد نواز شریف ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ انکو غیر جمہوری طریقے سے مختلف حیلوں بہانوں سے عوام سے جدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ترمیم میں کہا گیا ہے جو ممبر پارلیمنٹ بننے کا اہل نہیں وہ پارٹی سربراہ یا عہدیدار بننے کا بھی اہل نہیں۔ سینیٹر شبلی سرفراز نے کہا یہ شق عدالتی فیصلے کی توہین ہے شق کی منظوری سے ایوان کی بدنامی ہوئی، پارلیمنٹ پر دھبہ لگا۔ نیٹ نیوز کے مطابق زاہد حامد نے کہا ایوب خان کے دور میں نااہل شخص پر پارٹی سربراہ بننے کی پابندی لگائی گئی تھی جس کو ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت نے ختم کیا تھا اور اب بل میں ترمیم سے اپوزیشن آئین کے خلاف اقدام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا 17 نومبر 2014ءکو یہ شق ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو اس وقت پانامہ کا کہیں ذکر نہیں تھا اس لئے یہ کہنا درست نہیں یہ قانون ایک شخص کے لئے بنایا گیا ہے۔ حکومتی ارکان نے کہا کہ آج ایوب ازم اور مشرف ازم کو کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ بھٹو ازم کو شکست ہوئی ہے۔ بل کی حمایت میں فاٹا کے 5 ارکان نے اپوزیشن کی حمایت کی جبکہ پرویز رشید، مشاہداللہ خان، نثار محمد خان، سینیٹر مفتی عبدالستار ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہے، مذکورہ بل کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہل شخص کسی پارٹی کا عہدہ رکھنے کا بھی اہل نہیں ہوگا۔ صباح نیوز کے مطابق سابق وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر پرویز رشید نے انتخابی قانون 2017ءمیں ترمیم نہ منظور کرانے کیلئے پیپلزپارٹی کو بھٹو کی قسم کا بھی واسطہ دیا۔ انہوںنے اپوزیشن کے ترمیمی بل کو ذوالفقار بھٹو دشمن قرار دیا اور کہا یہ ترمیم پیش کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ پرویز رشید نے پیپلزپارٹی کے ارکان بالخصوص سینیٹر تاج حیدر کی طرف دیکھ کر کہا بھٹو کی قسم دیتا ہوں یہ ترمیم منظور نہ کرائیں باعث شرم ہے۔ اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن ترمیم کے موقع پر سینٹ سے غائب تھے۔ اے پی پی کے مطابق سینٹ نے مختلف ارکان کی طرف سے سات قراردادوں کی منظوری دیدی جبکہ چار قرارداد یں نمٹا دی گئیں ، دو قراردادوں کی منظوری کا معاملہ موخر کر دیا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے قرارداد پیش کی کہ اے جی پی آر مالی معاملات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی خود مختاری کو یقینی بنائے۔ سینیٹر مختار عاجز دھامرہ نے قرارداد پیش کی کراچی تا حیدر آباد قومی شاہراہ کو موٹروے میں تبدیل کرنے سے لائٹ ٹریفک کے لئے مسائل اور مشکلات جنم لیں گے۔ یہ ایوان سفارش کرتا ہے حکومت کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے منسلک کرنے کے لئے الگ موٹروے تعمیر کرے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے قرارداد پیش کی حکومت پاکستان کاٹن سٹینڈرڈ انسٹی ٹیوٹ، کراچی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔ سینیٹر عتیق شیخ نے قرارداد پیش کی کہ درآمدات اور برآمدات میں بڑھتے ہوئے فرق اور ملک اور اس سے ملک میں مقامی پیداوار پر منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت لگژری آئٹمز بشمول غیر ملکی پھلوں کی درآمد پر پابندی عائد کرے۔ سینیٹر عظم سواتی نے قرارداد پیش کی ضلع مانسہرہ کے نادرا دفاتر میں خواتین کے لئے الگ کاﺅنٹر قائم کئے جائیں۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے قرارداد پیش کی وفاقی سرکاری ہسپتالوں میں بائیو میٹرک نظام نصب کیا جائے۔ سینیٹر محسن عزیز نے قرارداد پیش کی ملک کے اقتصادی فوائد کے لئے حکومت بیمار یا بند پائیدار ٹیکسٹائل یونٹس کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کرے۔ ان کی ایوان نے منظوری دیدی جبکہ سرکاری اور نجی ہائیر سیکنڈری تعلیمی اداروں میں این سی سی دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے سینیٹر روبینہ خالد، سرکاری سکیم کے تحت حج اخراجات میں کمی کے حوالے سے سینیٹر طلحہ محمود، صوبائی ہیڈ کوارٹرز میں سرکاری جامعات اور کالجز کے داخلہ امتحانات سے متعلق سینیٹر جاوید عباسی، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر بنیادی حقوق اور ٹریفک قوانین قواعد کی تدریس کو مطالعہ پاکستان کا لازمی جزو بنانے سے متعلق ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی قرارداد کو نمٹا دیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق ایوان بالا میں اپوزیشن کے ارکان نے نئے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان نہ کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے معاملہ ایوان بالا کی کمیٹی آف دی ہول میں پیش کرنے کا مطالبہ کردیا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ معاملہ کے حوالے سے کمیٹی آف دی ہول تشکیل دینے کے معاملے پر غور کیا جائے گا اور بعد میں رولنگ دی جائے گی۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ بجلی کے بلز کی بنیاد پر ایف بی آر ڈیٹابیس بنا رہا ہے تاکہ اس کی مدد سے نئے ٹیکس دہندگان تلاش کئے جا سکیں۔ مزید برآں انہوں نے کہا قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے اعلان میں جان بوجھ کر تاخیر اور صوبوں کو وسائل سے محروم کرنے کا الزام درست نہیں‘ نئے مالیاتی ایوارڈ کا اعلان جلد ہو جائے گا‘ مسابقتی کمشن اجارہ داری کے خاتمے کے لئے اقدامات کر رہا ہے‘ بھاری جرمانے بھی کئے ہیں۔
سینٹ

ای پیپر-دی نیشن