جوشوا کی اہلیہ نے حجاب نہیں چھوڑا اسلام قبو ل کرنے پر نوکمنٹس
ٹورنٹو (بی بی سی ڈاٹ کام) حقانی گروپ کی پانچ سالہ قید سے بازیابی کے بعد کیٹلان کولمین نے کہا ہے کہ جس دن انہیں ان کے بچوں اور شوہر سمیت بازیاب کرایا گیا اس دن انہیں پاکستان منتقل نہیں کیا جا رہا تھا بلکہ وہ گذشتہ ایک سال سے پاکستان میں قید تھے۔ کیٹلان کولمین نے کینیڈین اخبار ٹورنٹو سٹار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس لئے اپنی خاموشی توڑ رہی ہیں کیونکہ ان کی قید اور بازیابی کے بارے میں متضاد دعوے کئے جا رہے ہیں۔ کولمین ایک مسیحی فرقے سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن انہوں نے کینیڈا واپس پہنچنے کے بعد حجاب لینا ترک نہیں کیا اور اس انٹرویو میں بھی وہ حجاب کے ساتھ نظر آئیں۔ حجاب لینے کے بارے میں ان سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس طرح جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اسلام تو قبول نہیں کر لیا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ 'نو کمنٹ۔' کولمین کو اپنے کینیڈین نژاد شوہر جوشوا بوئل کے ساتھ افغانستان کے صوبے وردگ میں اکتوبر 2012ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ جس وقت انہیں اغوا کیا گیا اس وقت وہ حاملہ تھیں۔ اپنی بچی کی ہلاکت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر کی طرف سے حقانی گروپ میں شمولیت سے انکار کے بعد ان کے حمل کو زبردستی گرا دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'وہ بہت غصے میں تھے کیونکہ جوشوا نے ان کے ساتھ شامل ہونے اور ان کے لیے کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے کھانے میں نسوانی ہارمون شامل کر دئیے گئے جس کی وجہ سے ان کا حمل ضائع ہو گیا۔ کولمین اور ان کے شوہر نے حمل ضائع ہو جانے کے بعد اس بچی کا نام 'شہید‘ رکھ دیا تھا۔ طالبان نے ایک ہفتے قبل ایک بیان میں کولمین کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا حمل قدرتی طور پر گرا تھا اور ایسا زبردستی نہیں کیا گیا۔ کولمین کے مطابق بعد کی دو زچگیوں کے دوران انہوں نے حمل کو چھپائے رکھا اور ان کے شوہر نے ٹارچ کی روشنی میں 'ڈلیوری' کروائی اور وہ خاموشی سے تکلیف سہہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ ان کے زیادہ بچے اور بڑا سا خاندان ہو۔ کولمین نے کہا کہ ایک ایسی قید جس میں رہائی کی کوئی امید نہ ہو اس نے ہماری زندگی ہم سے چھین لی۔ انہوں نے کہا کہ 'اس وقت ان کا یہ درست فیصلہ تھا کیونکہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہمیں کب تک قید رکھا جائے گا اور ہمیں واپس جا کر یہ موقع ملے گا یا نہیں۔‘اغوا کے بعد جس جگہ پر رکھا وہاں شوہر سے الگ کر دیا گیا تھا۔ 2014ء سے 2015ء کے دوران کئی جگہوں پر منتقل کیا گیا۔ اس دوران اسقاط حمل اور زیادتی بھی کی گئی۔ منشیات پلا کر گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا تھا۔