سپاٹ فکسنگ سکینڈل کا فیصلہ کرنیوالا ٹریبونل بھی پی سی بی کیلئے دردسربن گیا
لاہور( حافظ محمد عمران/ نمائندہ سپورٹس)چھتیس سماعتیں، 27 لاکھ کا خرچہ لیکن تاحال کیس زیر سماعت ہے کتنی سماعتیں اور ہونگی کتنا خرچ اور ہو گا کوئی نہیں جانتا،سپاٹ فکسرز کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل سپاٹ فکسنگ سکینڈل کا فیصلہ کرنیوالا ٹربیونل بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے درد سر بن گیا۔ لاکھوں کے اخراجات کے باوجود کیس ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ ذرائع کیمطابق ٹربیونل کے ایک رکن سرکاری ادارے میں اپنی پینشن کا رکا ہوا کام کروانے کیلئے پنجاب کی ایک اعلی حکومتی شخصیت سے روابط بڑھا رہے ہیں۔تاریخ پر تاریخ اور کیس میں تاخیر کی وجہ سے تین رکنی ٹربیونل کی حیثیت پر سوالات اٹھنے لگے۔ رواں سال فروری میں پاکستان سپر لیگ کے دوران سامنے آنیوالے سکینڈل کی سماعتیں اور تاریخیں ابھی تک جاری ہیں۔ کیس میں طوالت سے پی سی بی کے شواہد اور ٹربیونل کے کام کرنے کے انداز نے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل طوالت اختیار نہ کرتا اور اب تک اسکا حتمی نتیجہ سامنے آ جانا چاہیے تھا کہا جا رہا تھا کہ پی سی بی کے پاس ٹھوس ثبوت اور شواہد موجود ہیں ان حالات میں ابتک کیس ختم ہو جانا چاہیے تھا یہ بات بھی ہے کہ جب کسی بھی کیس میں وکلا آتے ہیں تو معاملہ طوالت اختیار کر جاتا ہے۔ جرح میں وقت لگتا ہے لیکن پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان سپر لیگ سپاٹ فکسنگ سکینڈل اب تک ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ بہتر ہوتا پاکستان کرکٹ بورڈ ٹربیونل کے اراکین کے لیے پچیس ہزار ڈیلی الاونس کے بجائے یکمشت رقم کی ادائیگی کرتا ایک اہم کیس کے لیے روزانہ کی بنیاد ٹربیونل اراکین کو ادائیگی مناسب طریقہ کار نہیں ہے۔پی سی بی نے فروری میں ہونیوالے پی ایس ایل کے دوران سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے لیے تین رکنی ٹربیونل قائم کیا تھا۔ ٹربیونل میں ایک سابق جج،کرکٹ بورڈ کے سابق چئیرمین اور سابق ٹیسٹ کرکٹر شامل کیا گیا تھا۔ سکینڈل میں محمد نواز اور محمد عرفان کی طرف سے اعتراف جرم کے بعد انہیں پابندی و جرمانے کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ شرجیل خان اور خالد لطیف کو ٹربیونل کی طرف سے سزا سنائی گئی تھی۔ ناصر جمشید اور شاہ زیب حسن کا کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔