عالمی سرسید کانفرنس کے مباحث اور احوال
جامعہ کراچی میں سرسید احمد خان (1817ئ- 1898ئ)کی یادیں اور باتیں اس قدر دل پذیر اور طبع زاد تھیں کہ قلب اور نظر سرشاری اور تازگی کا استعارہ بن گئی۔ یہ دراصل سرسید کی یاد میں دو سو سالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس تھی، جس کا اہتمام جامعہ کے شعبہ اردو نے کمال خوبصورتی اور ہنر مندی سے کیا تھا۔ صدر شعبہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس مرکز نگاہ تھیں۔ شعبۂ کے ایک سینئر استاد ڈاکٹر رؤف پاریکھ چھپے رستم کی طرح کانفرنس کے جملہ انتظامات چلاتے رہے اور اس خوبی کے ساتھ کہ اپنے پرائے سب انہیں داد و تحسین سے نواز رہے تھے۔ کانفرنس کیا تھی؟ سکالروں، دانش وروں، جید اساتذہ اور صاحب الرائے شخصیات کا ایک زور آور اکٹھ تھا،جو کم از کم میں نے اپنی زندگی میں اس سے پیشتر نہیں دیکھا۔ مندوب کی حیثیت سے کانفرنس میں میری شرکت ایک ایک لمحے سے خوشہ چینی کر رہی تھی۔ سر سید کی شخصیت اور نظام فکر کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا، جس پر سیر حاصل بات نہ کی گئی ہو۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی تو شان ہی نرالی تھی، شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اجمل خان صدارت کر رہے تھے، سٹیج پر ڈاکٹر تنطیم الفردوس اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھیں، ڈاکٹر قاسم پیرزادہ، ڈاکٹر محمد احمد قادری اور ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی براجمان تھیں۔ مقررین سرسید کی خورشید مثال شخصیت اور افکار پر رائے زنی کر رہے تھے۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ گذشتہ ڈیڑھ سو سال کے دورانیہ میں سرسید ردوقبول اور میزانیے کے جس کڑے معیار سے سرخرو ہو کر آج ہمارے سامنے موجود ہیں، وہ ان کی اصل اور حقیقی تصویر ہے، جو آنے والی تمام نسلوں کے کام آ سکتی ہے۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے بعد متوازی نشستیں شروع ہو گئیں۔ جو سرسیدات کے تمام موضوعات اور مباحث کو سمیٹ رہی تھیں۔ ایک نشست میں مجھے بھی اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرنے کا موقع ملا، موضوع تھا ادب، تاریخ و ثقافت۔ جنوب ایشیائی تناظر اور سرسید احمد خان، اس نشست کی صدارت مصر کے نامور سکالر ڈاکٹر ابراہیم کر رہے تھے جبکہ استاد الاساتذہ ڈاکٹر انوار احمد مہمان اعزاز تھے۔ میرے مقالے کا ایک جملہ تھا انیسویں صدی کے سرسید احمد خان جیسا کوئی مصلح، رہنما اور مجدد نظر نہیں آتا، جس کے تاریخ ساز نظریات اور لائحہ عمل کی تعبیر آج بھی پیہم جاری و ساری ہو۔ دیگر نشستوں میں جن اکابرین اور جید سکالرز نے مقالے پڑھے، ان میں ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی (علی گڑھ)، حیات رضوی امرہوی، ڈاکٹر فرحت جبیں ورک، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی، ڈاکٹر ہنیز ورنر ویسلر (سویڈن)، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر ذکیہ رانی، ڈاکٹر عابد سیال، ڈاکٹر اویس قرنی، ڈاکٹر سعدیہ طاہر، ڈاکٹر اشفاق بخاری، ڈاکٹر نثار ترابی و دیگر شامل تھے۔ سرسید کی فکری جہات سے خوشہ چینی کا یہ انمول موقع تھا، اسلیے کانفرنس کی تمام نشستوں میں شعبہ اردو کے طلباؤ طالبات بالخصوص اور دیگر شعبوں کے طالب علم بالعموم جوق در جوق شریک ہوئے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شعبہ اردو کے طلباء سمیت دیگر شعبوں کے نوجوان بھی کانفرنس کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ صدر شعبہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس دن رات انتھک کام کرتی رہیں۔ ان کا خلق اور احسان شرکائے کانفرنس کیلئے ہمیشہ یادگار رہے گا۔ شعبہ اردو کے اساتذہ میں سے سب سے زیادہ فعال ڈاکٹر رؤف پاریکھ تھے، ان کے ہمراہ ڈاکٹر ذکیہ رانی، ڈاکٹر راحت افشاں، ڈاکٹر شمع افروز، ڈاکٹر صدف فاطمہ، ڈاکٹر انصار احمد اور محمد سلمان سمیت دیگر فیکلٹی ممبران بھی بہت متحرک تھے۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں ہی استاد الاساتذہ اور لیجنڈ، سابق صدر شعبہ اردو ڈاکٹر شاداب احسانی کا تذکرہ سامنے آنے لگا، بوجہ علالت کانفرنس میں شریک نہیں تھے، لیکن وہ غائبانہ انداز میں سب کے مرکز نگاہ تھے، ہر سیشن میں میری اپنی نگاہیں صدر دروازے کی طرف اٹھتی رہیں، یہاں تک کہ میں اختتامی اجلاس میں تو بالکل مایوس ہو گیا۔ لیکن اچانک وہ کانفرنس ہال میں نمودار ہوئے تو تمام شرکائے کانفرنس نہال ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور تادیر تالیاں بجا بجا کر ڈاکٹر شاداب احسانی کا استقبال کیا، رسا چغتائی کا یہ شعر میری زبان پر تھا:
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
شاداب احسانی کیا آئے، کانفرنس میں بہار آ گئی۔ یوں لگا جیسے یہ کانفرنس انہی کے نام ہے اور یقیناً اس میں شک نہیں کہ وہ دو دن کانفرنس میں شریک نہ ہو سکے تو ہر دل اداس تھا۔ لیکن آج ان کے شاگردوں کے چہرے دمک رہے تھے۔ وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کو دیکھ پھولے نہ سمائے۔ سب نے ان کے لیے دعائیہ کلمات کہے، خود انہوں نے بہت پر تاثیر جملے کہے، ڈائس پر ان کا خطاب سب کے سینے کشادہ کر گیا۔ دراصل یہ کانفرنس بقول ڈاکٹر تنظیم الفردوس تین لوگوں کا خواب تھا، ایک وہ خود دوسرے ڈاکٹر شاداب احسانی اور پھر ڈاکٹر رؤف پاریکھ۔ بعدازاں اس کارواں میں انجمن ترقیٔ اردو کی روح رواں ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی شریک ہو گئیں۔ انہوں نے کانفرنس کو کامیاب بنانے کیلئے جو معاونت کی اور وسائل فراہم کئے، اس کا تذکرہ خوب رہا۔ یقیناً وہ بہت توفیق والی خاتون ہیں۔ دانش ور، سکالر اور خوبصورت کردار کی مالک۔ کانفرنس میں ہر شخص ان کا گرویدہ تھا۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر رخسانہ صبا کی علمیت اور گفتگو سے میں ذاتی طور پر بہت متاثر ہوا۔ ان کا تبحر علمی اور مطالعۂ ادب سب کے لئے قابل رشک رہا۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا اور ڈاکٹر راحت افشاں جیسی کمپیئرنگ میں نے آج تک دیکھی، نہ سنی، یقیناً یہ ہر دو لکھاری اور سکالرز کراچی کے علم و ادب کا اثاثہ ہیں۔ ان دونوں سے میری سرسری گفتگو بہت پراثر اور یادگار رہی۔ ملکی مندوبین اور شرکاء میں سے ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر عابد سیال، ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی، ڈاکٹر اشفاق بخاری، ڈاکٹر نثار ترابی، ڈاکٹر اصغر علی بلوچ، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ڈاکٹر اصغر سیال، ڈاکٹر سعدیہ طاہر، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر قاسم بگھیو اور ڈاکٹر آصف فرخی سے بہت یادگار ملاقاتیں اور باتیں ہوئیں۔ سب سے زیادہ خوشی ڈاکٹر یونس حسنی کے ساتھ ملاقات سے ہوئی۔ وہ بہت خلیق بزرگ اور میرے استاد بھی ہیں۔ غیر ملکی مندوبین میں سے میں سب سے زیادہ متاثر بلکہ مرعوب سویڈن کے اردو سکالر ہنیزورنر ویسلر سے ہوا۔ وہ اردو بولتے ہوئے کوئی آسمان سے اترے ہوئے فرشتے لگتے ہیں۔ ان کی علمیت اور ہمہ دانی اپنی مثال آپ ہے، علی گڑھ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ابوسفیان آفاقی سے ملنے کے لیے تومیں لپک کر گیا، سرسید سے نسبت کے سبب ان کی شخصیت بہت دل آویز تھی، شیروانی میں ملبوس وہ جب پہلے دن آئے تو مجھے اپنے سے لگ رہے تھے، ان سے خاصی گفتگو رہی، مسکرا مسکرا کو جب وہ دائیں بائیں دیکھتے تو دلوں کو مسخر کر لیتے ہیں۔ مصر کے نامور سکالر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے تو مجھے کانفرنس کی ایک نشست میں نشان سپاس بھی مرحمت فرمایا، ان کی اردو زبان گفتار اور تحریر دونوں کی غازی ہے۔ کانفرنس میں ہمارے عہد کے دو لیجنڈ ایسے تھے، جنہوں نے اپنی علمیت کا سکہ جمائے رکھا، ڈاکٹر تحسین فراقی اور ڈاکٹر انوار احمد کی گفتگو اور باتیں دلوں کا قرار بن گئی تھیں، کانفرنس کی اختتامی نشست بہت تاریخی اور یادگار رہی، اس میں ڈاکٹر تنظیم الفردوس کا یہ جملہ بہت دل گداز تھا، بولیں اﷲ سے جو مانگا تھا، اس سے بھی سوا ملا۔ یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑیں، ان کی پلکوں پر ستارے دیکھ کر شرکاء میں سے بعض کے خوشی سے آنسو چھلک پڑے۔ دوسری مرتبہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس پر اس وقت بھی رقت طاری ہوئی جب وہ اپنے شاگردوں کی تھکن آمیز محنت اور رت جگوں کا تذکرہ کر رہی تھیں۔ استاد اور شاگرد کے روحانی اور قلبی رشتے کی یہ بہت خوبصورت جہت تھی، جو خود میرے اندر ایک ولولہ تازہ بھر گئی۔ ڈاکٹر روفٔ پاریکھ نے تو اختتامی اجلاس میں اپنی ہمہ دانی کا جھنڈا گاڑ دیا، تقریر میں زبان و بیان پر قدرت انہی کا حصہ تھا۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اجمل خان اور رئیس کلیہ سماجی علوم ڈاکٹر محمد احمد قادری کا کہنا تھا ہم ایسی تاریخی کانفرنسیں کرتے رہیں گے۔