ویت نام ہیں نہ عراق‘ قربانی کا بکرا نہیں بنیں گے‘ مخالفانہ بیانات امریکہ کا دوہرا معیار : خواجہ آصف ‘ پابندیاں نہیں لگا رہے : واشنگٹن
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ صباح نیوز+ نوائے وقت نیوز) وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امرےکہ کو کہہ دیا ہم قربانی کا بکرا بننے کےلئے تیار نہیں ہیں نہ اسکی ناکامیوں کے ذمہ دار ہیں واضح کر دیا ہم نہ ویت نام ہیں نہ عراق۔ سی پیک پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ ہم آپ پر اعتبار نہیں کرتے، میں نے جواب دیا ہمیں بھی آپ پر اعتبار نہیں، اقوام متحدہ اجلاس پر امریکی نائب صدر نے ملاقات کا پیغام بھیجا کچھ وضاحتیں کیں، ہم نے بھارتی کردار کا معاملہ اٹھایا۔ امریکی صدر نے محفوظ پناہ گاہوں کی بات دہرائی تاہم وزیر اعظم نے امریکہ کے اس موقف کو مسترد کیا۔ انہوں نے کہا موثر بارڈر مینجمنٹ کے بغیر امرےکہ کو شکایات رہیں گی۔ ہم نے زور دیا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور سینیٹر مکین نے سینٹ کمیٹی میں دھمکی آمیز لہجہ اپنایا۔ جان مکین نے ویتنام کی مثال دی جس پر میں نے ان کو جواب دیا کہ ویتنام میںامرےکہ کو بھاگنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا تھا امریکی تھنک ٹینکس سے خطاب میں کھل کر باتیں کیں جس کے بعد امریکی لب و لہجے میں تبدیلی آئی۔ کینیڈین خاندان کی بازیابی کے معاملے نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ کم ہوگیا۔ امرےکہ سے کہا کہ وہ بھارت پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے دباﺅ ڈالے۔ پاکستان امریکہ تعلقات کےلئے پارلیمنٹ سے رہنمائی لیں گے۔ پارلیمنٹ کو باہر رکھ کر تعلقات رکھنے کے نتائج بہت بھیانک ہیں جب کہ قومی مفاد پر کسی صورت رتی برابر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ کو دورہ پاکستان سے روکا گیا۔ پارلیمانی قراردادوں سے بھی امرےکہ کو سخت پیغام گیا۔ وزیر خارجہ نے انکشاف کیا کہ ”را“ اور این ڈی ایس کا پاکستان میں دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام بنایا۔ سرحد عبور کرتے ہوئے 9افغان خودکش بمبار پکڑے گئے۔ قائمہ کمیٹی نے کابل اور نئی دہلی میں امریکی وزیر خارجہ کے پاکستان کے حوالے سے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے ان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم امریکہ سے اس کے متنازعہ بیانات سے متعلق بات کرتے ہیں تو وہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے حلقوں کے لئے بھی کچھ کہنا پڑتا ہے تاہم امریکہ سہ رخی زبان اختیار کئے ہوئے ہے۔ کابل میں بیان کچھ اور، اسلام آباد اور واشنگٹن میں کچھ اور بیان ہوتا ہے۔ ٹلرسن کے بیانات امریکہ کا دہرا معیار ہے۔ یہی امریکی وزیر خارجہ بگرام ایئربیس سے نہ نکل سکے تھے اور افغان صدر نے اسی فوجی ایئربیس پر ان سے ملاقات کی، یہ امریکہ کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ڈرون حملوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں ہمارے سرحدی علاقے دہشت گردوں سے صاف ہو گئے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں شفافیت لانا چاہتے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان 1980ءاور پرویز مشرف کے دور کے قومی مفادات پر سمجھوتوں کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے پاک امریکہ تعلقات بالخصوص حالیہ 3 ماہ کی پیشرفت کے تناظر میں امریکہ کو کوئی رعایت نہیں دی وہ جس زبان میں بات کرتا ہے اسی زبان میں بات کرتے ہیں۔ امن کے قیام میں پاکستان مخلص ہے اور ایسا اپنے مفاد میں کر رہا ہے۔ آرمی چیف کے دورہ کابل کے دوران جن امور پر بات چیت ہوئی ان پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہے ہیں۔ اجلاس میں اس بریفنگ کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت کی مذاکراتی میز پر امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کو قومی اسمبلی کی قرارداد کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ قرارداد میں واضح کیا گیا تھا کہ امریکہ کی پاکستان پر الزام تراشی کے نتیجہ میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس تناظر میں پاکستان آنے والے امریکی عہدیداروں سے صرف ان کے ہم منصب ملاقات کریں۔ یہاں ساری قیادت امریکی وزیر خارجہ کے سامنے بیٹھ گئی۔ پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ نے امریکی وزیر خارجہ کے دورئہ پاکستان کا مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے الگ الگ بیانات جاری ہوئے ہیں۔ قبل ازیں مجلس قائمہ کے اجلاس میں صدر مجلس مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ امریکی صدر کی جنوبی ایشیا پالیسی کے حوالے سے پاکستان کا ردعمل اجتماعی، نپا تلا اور صورتحال کے حقیقی تجزیہ پر مشتمل تھا۔ امریکہ کو افغانستان میں اب سچ کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہمارے اختلافات کو تنازعہ میں تبدیل نہ کیا جائے۔
واشنگٹن (آن لائن) امر یکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ان کے ملک میں دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کے انکار کی وجہ سے پاکستان پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ کو پریس بریفنگ کے دوران تجویز دی گئی پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہونے کے امریکی الزامات کو ماننے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا وہ مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئیاں نہیں کر سکتیں۔ اپنی پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے پاکستان امریکہ تعلقات کے لیے امریکی وزیر خارجہ کے دورہ اسلام آباد پر بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم امریکی میڈیا کا ریکس ٹلرسن کے دورہ پاکستان کے حوالے سے کہنا ہے کہ سیکرٹری آف سٹیٹ کا استقبال دفترخارجہ کے درمیانی سطح کے حکام اور پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے راولپنڈی کے چکلالہ ائربیس پر کیا۔ امریکی سرکاری ریڈیو کا کہنا تھا پاکستان میں ریکس ٹلرسن کا ان کے شایانِ شان استقبال نہیں کیا گیا جیسا کہ عموماً ایک اعلیٰ سطح کے سرکاری حکام کا کیا جاتا ہے۔ترجمان سے سوال کیا گیا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ٹوئیٹ کیا تھا ٹلرسن نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی جبکہ وہ اس وقت بگرام ائر بیس پر موجود تھے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا یہ ایک معمولی سی غلطی تھی۔
امریکہ