عمران کی تحریری اور روسٹرم پر آ کر معافی الیکشن کمشن نے توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) الیکشن کمشن نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے توہین عدالت کے دو کیسز میں معافی کو قبول کرتے ہوئے کیسز کو نمٹا دیا۔ عمران خان کی جانب سے دستخط شدہ معافی نامے جمع کرانے پر توہین عدالت کے دو کیسز ختم کردئیے۔ گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کی سربراہی میں 5 رکنی کمشن نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کو الیکشن کمشن کو متعصب کہنے اور اسے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا الیکشن کمشن کہنے پر 2 کیسز کا سامنا تھا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری وارنٹ گرفتاری کے نوٹس کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن کو حکم کی تعمیل نہ ہونے پر تشویش تھی، عمران خان کے وکیل نے مبینہ توہین آمیز درخواست واپس لے لی۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانے کیلئے کردار ادا کیا۔ بابر اعوان نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ عمران خان کے خلاف کارروائی ختم کی جائے۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی جانب سے دونوں کیسز میں دستخط شدہ معافی نامے پیش کئے جسے 5 رکنی کمیشن نے تسلیم کرلیا۔چیف الیکشن کمشنر نے بابر اعوان کو عمران خان کے بیان کا متن پڑھنے کے لئے دیا جو وہ سماعت کے دوران پڑھنے سے گریزاں رہے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کیا ہم یہ الفاظ پڑھ دیں، ہمیں شرم نہیں آتی جو الفاظ ہمارے خلاف استعمال کئے گئے وہ پڑھیں جس پر بابر اعوان نے کہا کہ میں آپ کو بھی وہ الفاظ پڑھنے نہیں دوں گا، اڈیالہ جیل میرا سسرال ہے، میں الفاظ نہیں پڑھتا آپ مجھے سسرال بھیج دیں۔ دوسری درخواست کے تمام الفاظ پر آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ بابر اعوان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کے احکامات معطل کر چکی ہے اس کے باوجود وہ اداروں کے احترام میں آج الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے، ہم نے تین بار معافی مانگی ہے اسے قبول کیا جائے۔الیکشن کمیشن کے احکامات معطل ہونے کے باوجود ہم پیش ہوئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا آپ نہیں پڑھتے تو آپ کے مخالف وکیل سے پڑھا دیتے ہیں۔ اگر الفاظ پر غور کیا جائے تو کیا یہ توہین نہیں ہے۔ معافی نامے پر عمران خان کے دستخط ہونے چاہئیں۔ اداروں کا کوئی احترام تو ہونا چاہئے۔ ممبر الیکشن کمیشن سندھ نے کہا کہ اس طرح کے الفاظ ادا کیے گئے ہیں جو آپ خود بھی نہیں پڑھ سکتے۔ چیف الیکشن کمشنر نے اکبر ایس بابر کے وکیل کو 20 ستمبر والا عمران خان کا بیان پڑھنے کی ہداہت کر دی۔ اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے عمران خان کا 20 ستمبر کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا۔اس کے علاوہ اکبر ایس بابر کے وکیل حسن احمد نے معافی کے حوالے سے پانچ نکات سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ملزم کو احساس ہونا چاہیے کہ اس نے توہین عدالت کی ہے۔ کیا ملزم نے معافی مانگی ہے۔ معافی مخلصانہ ہونی چاہیے۔کیا ملزم کی معافی تمام قانونی تقاضے پوری کر رہی ہے۔ عمران خان کی طرف سے شوکاز نوٹس میں الزامات کا جواب دینا ضروری ہے۔عمران خان ایک بار نہیں بلکہ کئی بار توہین عدالت کے اقدامات کر چکے ہیں۔ اداروں کا احترام اس طرح نہیں ہوتا۔ معافی نہ مانگنے پر سزا دینی چاہئے۔ اس موقع پر رکن الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے سوال کیا کہ کیا آپ کے موکل الیکشن کمیشن میں غیر مشروط معافی مانگنے کو تیار ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ ہم پہلے دو بار الیکشن کمیشن سے معافی مانگ چکے ہیں۔ 9جنوری کو دی گئی نظرثانی درخواست واپس لیتے ہیں جس پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ جواب واپس لینے سے کیا توہین آمیز الفاظ بھی واپس ہوجاتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا زبانی معاملات نہیں چلیں گے، تحریری معذرت نامہ پیش کریں، عمران خان کے دستخطوں کے ساتھ جواب جمع کرائیں۔ عمران خان نے روسٹرم پر آکر کراچی میں الیکشن کمیشن سے متعلق بیان پر معافی مانگ لی جسے الیکشن کمیشن نے قبول کر لیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا 20 ستمبر کے توہین عدالت کیس کا معاملہ ابھی باقی ہے، معافی نہ مانگی تو کارروائی ہوگی جس پر عمران خان نے دوسرے کیس میں بھی الیکشن کمیشن سے معافی مانگ لی۔ جسے الیکشن کمیشن نے قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کیس ختم کر دیا۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے دوران مسلسل عدم پیشی پر گزشتہ سماعت پر وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چیئر مین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ میری تنقید کا مقصد الیکشن کمیشن کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ اسے قابل اعتماد بنانا تھا ، امیدرکھتا ہوں الیکشن کمیشن وہ انتخاب کرائے جس کے لیے قوم ترسی ہوئی ہے، الیکشن کمیشن کے انتخاب کا مرحلہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر مک مکا کرلیں، یہ عمل غیر جانبدار ہونا چاہیے تاکہ سب اسے تسلیم کریں، اگر کسی کی بدتمیزی اور گندی زبان دیکھنی ہے تو مریم نواز کے موٹو گینگ کی دیکھیں، میں صرف ان لوگوں پر بولتا ہوں جو ملک کا پیسہ باہر لیکر جاتے ہیں اور لوگوں کو غریب بناتے ہیں۔ میری تنقید کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن معتبر ہو اور صاف شفاف الیکشن کرائے جائیں، پڑوسی ملک میں جو الیکشن ہارتا ہے وہ دوسرے کو مبارکباد دیتا ہے لیکن ہمارے ملک میں 1970ءکے بعد سے سارے الیکشن متنازع تھے، 2013کے الیکشن میں جو جیتا اور جو ہارا سب نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلا الیکشن ٹھیک کرانے کے لیے 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا، میرا مقصد الیکشن کمیشن کو نیچا دکھانا نہیں تھا، جمہوریت صاف شفاف الیکشن کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ جمہوریت کے لیے یہ ضروری ہے، میری ساری جدوجہد اور 126دن کے دھرنے کا مقصد تھا کہ ملک میں شفاف الیکشن ہوں، یہاں بھی الیکشن کمیشن آزاد اور مظبوط ہو، میری تنقید کسی کو برا بھلا کہنے کے لیے نہیں تھی۔عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے انتخاب کا مرحلہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر مک مکا کرلیں، یہ عمل غیر جانبدار ہونا چاہیے تاکہ سب اسے تسلیم کریں، ہمارے ملک کی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن کا وقار مزید بڑھے جب کہ تنقید جمہوریت کا حصہ ہے، پارلیمان میں تنقید اس لیے کی جاتی ہے تاکہ ادارے ٹھیک ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کو برا بھلا کہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آج توہین عدالت کا کیس ختم ہوگیا، یہ سارا مسئلہ غلط فہمی کا تھا اور انہوں نے میری وضاحت کو مانا، امید کرتا ہوں کہ الیکشن کمیشن ایسے الیکشن کرائے جس کےلئے قوم ترسی ہوئی ہے، ہمارے ملک میں بھی ایسے الیکشن ہوں کہ ہارنے والا جیتنے والے سے ہاتھ ملائے اور ہم اس کے لیے کوشش کرتے رہیں گے۔چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ اگر کسی کی بدتمیزی اور گندی زبان دیکھنی ہے تو مریم نواز کے موٹو گینگ کی دیکھیں، میں صرف ان لوگوں پر بولتا ہوں جو ملک کا پیسہ باہر لیکر جاتے ہیں اور لوگوں کو غریب بناتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلا الیکشن ٹھیک کرانے کے لیے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا، کیونکہ جمہوریت کے لیے یہ ضروری ہے، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ میری ساری جدوجہد اور ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ملک میں شفاف الیکشن ہوں، یہاں بھی الیکشن کمیشن آزاد اور مضبوط ہو۔عمران خان نے معافی کے بعد الیکشن کمشن سے نکلتے ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پرانا موقف پھر دہرایاکہ کیس الیکشن کمشن مک مک سے نہیں ہونا چاہئے۔
الیکشن کمشن/ عمران معافی