امریکہ افغانستان سے جائے گا نہ پاکستان کو مغربی سرحد سے خطرات کم ہونگے
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) تمام دستیاب شواہد اس بات کی تائید کر رہے ہیں امریکہ، طویل عرصہ تک افغانستان میں موجود رہنا چاہتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کو مغربی سرحد سے لاحق سلامتی و دفاع اور معاشی خطرات کی نوعیت اور شدت میں کوئی کمی رونما ہونے کا امکان نہیں اور وسط ایشیا سے بجلی اور گیس کی فراہمی کے منصوبے تشنہ تعبیر ہی رہیں گے۔ اسلام آباد میں حالیہ پاک امریکہ مذاکرات اور ریکس ٹلرسن کی آرمی چیف کے ساتھ الگ سے مختصر ملاقات کے احوال سے آگاہ ایک ذریعہ کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی طویل المیعاد موجودگی صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطہ کیلئے باعث تشویش ہے اور خطہ کے ملکوں کو افغان خانہ جنگی کے جاری رہنے کے مضمرات اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے یہاں جڑیں پکڑنے کے خدشات کے تدارک کیلئے سر جوڑ کر مل بیٹھنا ہو گا۔ اس ذریعہ کے مطابق پاکستان نے بالواسطہ اور براہ راست امریکہ کو متعدد بار مشورے دیئے ہیں کہ وہ افغان جنگ جیتنے کی کوشش کرنے کے بجائے افغان جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کرے لیکن امریکہ اس نوعیت کے کسی مشورے پر کان دھرنے کیلئے تیار نہیں۔ امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سطح کے حالیہ رابطوں کے بعد اسلام آباد میں یہ متفقہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اولاً امریکہ، اپنی فوجی موجودگی میں غیر معمولی اضافہ کئے بغیر حکمت عملی تبدیل کر کے کم از کم مزید ایک دہائی کیلئے افغانستان میں موجود رہنا چاہتا ہے تاکہ اس جنگ زدہ ملک میں اس کی اب تک کی فوجی اور معاشی سرمایہ کاری کے ثمرات حاصل کرنے کی کوئی راہ نکالی جا سکے۔ دوم، یہ کہ افغانستان میں بھارت کو اضافی کردار سونپ کر، خطہ کی سلامتی اور معیشت کے شعبوں میں پاکستان اور چین دونوں کی پیشرفت کا سدباب کیا جائے، ایشیا بحرالکاہل میں ان ہی مقاصد کیلئے امریکہ، جاپان اور بھارت کو اکٹھا کرنا چاہتا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق، بھارت، افغانستان کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے سرگرم کردار ادا کرنے سے خود گریزاں ہے اور سمجھتا ہے کہ افغان معاشرہ میں اس کے مﺅثر معاشی اور ثقافتی کردار کو فوجی موجودگی سے ٹھیس پہنچے گی چنانچہ بھارت، انٹیلیجنس شعبوں میں امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہے اور ساتھ ہی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف بھی مﺅثر طریقہ سے استعمال کر رہا ہے لیکن وہ پراکسی سے آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔ بھارت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ پاکستان اپنی دونوں سرحدوں پر بھارت کی فوجی موجودگی کے باعث غیر معمولی مشتعل ہو سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ افغان کٹھ پتلی قیادت، کو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ ان کی سرزمین کو دوسرے ملک کس طرح پڑوسی ملکوں کے خلاف استعمال میں لا رہے ہیں۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اس صورتحال کو سمجھ رہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ روابط کو پھر بحال کرنے کے خواہش مند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق جہادی ساتھیوں کو خیر سگالی کے پیغامات بھی ارسال کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کیوں افغانستان کے کمبل کو نہیں چھوڑنا چاہتا؟ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ امریکہ قطعی یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ وہ سابق سوویت یونین کی طرح افغانستان سے ہار کر نکل رہا ہے۔ افغانستان سے پسپائی دیگر خطوں میں اس کے رعب داب پر اثر انداز ہو گی۔ اسی لئے امریکہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان کی فوجی فتوحات کو محدود کر کے انہیں افغان حکومت میں شامل کر کے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ آخرکار فتح اس کی ہوئی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی، پاک چین معاشی راہداری کیلئے ایک مستقل دباﺅ ہو گا۔ چین اور روس کو گرم پانیوں تک رسائی سے روکنا ممکن ہو گا۔ چین کی حد تک تو امریکی پالیسی مﺅثر ثابت نہیںہوئی لیکن روس کی حد تک وہ رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے کیونکہ روس کے راستے وسط ایشیا اور افغانستان سے ہو کر گزرتے ہیں۔
امریکہ/ افغانستان