پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کا اعزاز
پورے ملک کے سیاسی منظر نامے میں سوال ہی سوال ہیں‘ مائنس نوازشریف فارمولا؟‘ ٹیکنو کریٹ حکومت؟ شہباز شریف کی پارٹی قیادت؟‘ مسلم لیگ ن کے اندر تقسیم؟ وغیرہ وغیرہ۔ جتنے منہ اتنی باتیں‘ جتنے ذہن اتنی اختراعات جب کچھ سجھائی نہ دے اور جمہوریت سے بالا بالا اذہان متحرک ہو کر قوم کے لئے فیصلوں کی راہ پر چل نکلیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں پھر قوم نہتی اور خانماں برباد ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس طرح وہ ’’ڈوبنے والے نے لہر موج کو ساحل سمجھا‘‘ کی راہ پر نکل آتی ہے۔ عوام الناس بالخصوص غریب اور متوسط عوام کو کیا چاہئے؟ انہیں نواز شریف‘ آصف زرداری اور نہ ہی عمران خان چاہئے‘ وہ تو سکھ اور چین کی زندگی کے متمنی ہیں۔ ایسا سیاسی اور سماجی کلچر جہاں معاشی آسودگی ہو‘ ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو اور امن و امان کا دور دورہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے تیور کسی نظم و ضبط میں آجائیں‘ سیاسی دنگل کا منظر نامہ نہ ہو اور حکومت چاہے کوئی بھی ہو‘ جمہوری اور فلاحی راستوں پر چلے‘ عزتیں محفوظ ہوں اور سیاسی مداری دمادم مست قلندر کی روش ترک کردیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں مقتدر قومی اداروں کی تکون فوج‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ اک دوجے کا ہاتھ تھام کر قومی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ انتخابات ہوتے رہیں‘ حکومتیں بنتی رہیں اور یہ کاررواں چلتا رہے۔ اب سنجیدہ بات یہ بھی ہے کہ معصوم پاکستانی عوام کی خواہشات جو ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہیں۔ قائداعظم سمیت سبھی بانیاں پاکستان کی سوچ بھی یہی تھی۔ آواز دوست جیسی شہرہ آفاق کتاب کے مصنف مختار مسعود مرحوم کی آخری کتاب ’’حرف شوق‘‘ جو حال ہی میں شائع ہوئی‘ پڑھنے کے لائق ہے‘ اس میں وہ رقم طراز ہیں جب ہم علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔ یونیورسٹی کا اندرونی ماحول نئی اسلامی اور جمہوری مملکت کے خواب دیکھتا ہوا نظر آتا تھا اور ہم سمجھتے تھے جیسا یہ ماحول ہے‘ پاکستان بھی ایسا ہی خوبصورت ہوگا۔ یقیناً یہی خواب علامہ اقبال نے بھی دیکھا تھا‘ جو قائداعظم نے تعبیر کیا‘ پھر چوہدری محمد علی مرحوم تک اس خواب کی بتدریج تعبیریں ہوتی رہیں لیکن غلام محمد اور سکندر مرزا ایسے بدبخت نے اس خواب کی ساری تعبیریں ملیا میٹ کر دیں۔ صرف دعائیں اور مناجات ہی باقی رہ گئیں۔ لیاقت علی خان نے دم شہادت دعا کی تھی اﷲ پاکستان کی حفاظت کرے‘ لگتا ہے آج ہم اسی دعا کی بدولت سر اٹھائے زندہ ہیں۔ بے اعتدالیوں اور سنگین اخلاقی قباحتوں کے باوجود ہم نے 1973ء کا آئین بنا لیا اور ریکارڈ کرپشن اور لوٹ مار کے باوصف محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان و دیگر سائنس دانوں نے ایٹم بم تک بنا لیا لیکن جو چیزیں ہم نہ بنا سکے وہ مجموعی قومی کردار اور ضابطہ اخلاق ہے۔ اس کے بغیر چلتے چلتے بھی ہمیں نصف صدی ہو گئی۔ کانٹوں کا یہ سفر ہم نے بڑی جان جوکھوں سے طے کیا۔ ٹوٹ پھوٹ اور بیرونی رخنہ اندازی کے عمل سے گزرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو بیٹھے اور اب نوبت ایں جا رسید کہ ہمارا ازلی دشمن خاکم بدہن بلوچستان کو ہمارے وجود سے الگ کرنے کے درپے ہے لیکن قدرت کی معجز نمایاں دیکھئے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم جو کبھی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر سٹیڈیم میں اتری تھی‘ آج بس میں بیٹھ کر گراؤنڈ میں آئی‘ کرکٹ میچ ساری دنیا نے دیکھا اور داد دی۔ یہ دہشت گردی کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جو ہمارے سیکورٹی اداروں‘ پولیس اور فوج نے دشمن کے منہ جڑ دیا ہے۔ دریں اثناء اسے بھی اﷲ کی خاص عطا ہی کہیے تازہ خبر یہ ہے کہ معاشی عالمی درجہ بندی کے ادارے اسٹینڈرڈ اینڈ پوورز ریٹنگز (ایس اینڈ پی) نے پاکستانی معیشت پر مثبت رائے دی ہے۔ اس کا کہنا ہے پاکستان کی معیشت کے اقتصادی امکانات سازگار ہیں اور یہ صورت حالات مکمل کے خارجی اور مالیاتی عوامل کے استحکام کی تائید کرتی ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے سیکیورٹی صورتحالات کو بہتربنایا اور انفراسٹرکچر میں رخنوں کو کم کیا۔ اس عالمی ایجنسی کا یہ بھی کہنا ہے حکومت اپنے اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل پیرا رہے گی اور موجودہ بیرونی عدم توازن عارضی ہے۔ یہ کیفیت آئندہ دو برسوں میں تبدیل ہو جائے گی۔ عالمی ادارے نے ان خصائص کی بنیاد پر پاکستانی معیشت کی موجودہ قلیل اور طویل مدتی خودمختار کریڈٹ ریٹنگ ’’بی‘‘ کی توثیق کردی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر نیب کے مقدمات اور اس کی سنگینی ملاحظہ کرنے والے سیاسی مخالفین کو اس حوالے سے بھی ان کے کریڈٹ کودیکھنا چاہئے۔ یقیناً پاکستانی معیشت کو اس نہج تک پہنچانے کے لئے اسحاق ڈار نے ہی سخت محنت اور جدوجہد کی ہے۔ اس کے بین بین اگر عالمی ایجنسی ایس اینڈ پی کی اس تازہ رپورٹ کو بنظر غائر دیکھا جائے تو ملک میں امن و امان کی صورت کو بحال کرنے اور دہشت گردی کو سرمنہ شکست دینے میں پاک فوج‘ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کا واضح اور شفاف کردار موجود ہے‘ کیونکہ معاشی ترقی ملک میں امن و امان کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ فوج اور پولیس نے تو اس مقصد کے حصول کی خاطر بے مثال قربانیاں دی ہیں‘ جن سے صرف نظر کسی بھی محب وطن اور دردمند پاکستانی کی مجال نہیں۔
سیاسی حالات کچھ بھی ہوں‘ افغانستان کے امریکی واسرائے ٹرمپ کچھ بھی کہیں‘ پاکستان کے بدترین مخالف بھی اس ملک کو ایک اٹل حقیقت کہتے ہیں‘جس کو جھٹلانا اور عالمی تعلقات کے عمل سے باہر رکھنا ممکن ہی نہیں۔ رہ گئے پاکستان کے اندرونی معاملات او سیاسی ریشہ دوانیاں۔ یہ صورت حالات دنیا کے ہر جمہوری ملک میں کم و بیش پائی جاتی ہے‘ اس سے ملک اگر کمزور اور ناتواں ہونے لگیں تو بھلی رہی۔ بقول چوہدری نثار علی خان حالات 1999ء سے بھی برے ہیں اور ن لیگ ذاتی مفادات کی پارٹی بن گئی ہے‘ جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ سنگین تر بھی ہو جاتا ہے۔ تاہم چوہدری نثار علی خان کی یہ بات بہت اہم ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں آئندہ الیکشن کی تیاری کے لئے انتخابی مہمات شروع کر چکی ہیں‘ مسلم لیگ ن کیوں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے؟ اسے بھی الیکشن مہم میں جانا چاہئے اور سچی بات ہے ملک کے سبھی سنجیدہ اور راسخ سیاسی ذہن رکھنے والوں کا مسلم لیگ ن سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ انتخابات کی تیاری شروع کریں‘ مبادا پھر دیر ہو جائے اور اگر اس مرتبہ کوئی کمی رہ گئی تو وہ بعد از الیکشن پوری ہو سکے گی اور نہ ہی کسی کوتاہی کا ازالہ ہوگا۔ حلقہ 120 لاہور کا انتخابی معرکہ مسلم لیگ ن کے لئے ایک ٹسٹ کیس تھا جو شاندار کامیابی میں تبدیل ہوا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مخالفین کے بعض سنگین پراپیگنڈوں از قسم ٹیکنو کریٹ حکومت کا قیام اور مائنس نواز فارمولا کو کاؤنٹر کرنے کے بجائے الیکشن کی شاندار تیاری کی جائے تو بہتر ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی کئی باتوں پر تو اعتراض لگ سکتا ہے‘ بہت سی باتیں وہ درست بھی کرتے ہیں‘ مسلم لیگ ن نے عدالتوں کے فیصلوں کو کاؤنٹر کرنے کے لئے جو وقت ضائع کیا‘ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جے آئی ٹی کو قبول بھی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بسا اوقات سیاسی جماعتوں کو بہت سی حماقتیں لے ڈوبتی ہیں۔ چوہدری نثار علی دراصل جب اپنی پارٹی پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں تو وہ انہی حماقتوں بارے رطب اللسان ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے سننا چاہئے۔ بارے وہ کوئی ایسی بات بھی کر دیں‘ جس میں پارٹی کے لئے بھلائی اور آسودگی ہو۔