کشمیر میں مذاکرات کار کی تقرری کا ناٹک!
تعجب نہ ہونا چاہئے بی جے پی نے پھر خود کو دھوکا دینے کا ناٹک رچایا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ’’مذاکرات‘‘ کے لئے وینش شرما نامی شخص کو مقرر کر دیا گیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے معاملات کے انچارج رام مادھُو کے بقول اگر حریت پسند رہنما بھی آگے آئیں گے تو وہ (وینس شرما) ان سے بھی بات کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ فی الحال مذاکرات ممکن نہیں‘‘ غور طلب ہے کہ حریت رہنماء اگر خود مذاکرات کرنا چاہیں گے اور پاکستان سے مذاکرات ممکن ہی نہیں ہیں تو پھر یہ نامزد مذاکرات کار کس سے مذاکرات کرے گا۔ ساری دنیا بے شک مسئلہ کشمیر کی جانب سے مصلحتاً آنکھیں بند کر لے مگر وہ یہ حقیقت تو جانتی ہے کہ اس تنازعہ کے اصل فریق کشمیری عوام اور پاکستان ہیں جب ان دونوں سے ہی مذاکرات نہیں ہوں گے تو ان کا حاصل وصول کیا ہو گا۔ اس حقیقت سے آگاہی بھارت کی دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ پھر یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ان تصوراتی مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہے اگر اقوام متحدہ میں کئے گئے وعدہ کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینا ہے تو اس کے لئے مذاکرات نہیں بلکہ استصواب رائے کے لئے انتظامات ضروری ہیں۔ حق آزادی مانگنے والوں پر تو مظالم کے پہاڑ توڑے ہی جا چکے ہیں۔ بھارتی فوج کی سفاکیت کا اندازہ اس گھناؤنے اقدام سے لگایا جا سکتا ہے کہ چودہ سالہ انشاء کو فائرنگ کر کے، نو سالہ جنید کو پیلٹ گن سے اور گھر کے صحن میں بیٹھی ہوئی گیارہ سالہ شکینہ کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ گھر کے کُھلے دروازے سے بھارتی فوج نے اسے بیٹھا ہوا دیکھ لیا تھا۔ برہان وانی کے بعد اب تک 168 نوجوان شہید ہو چکے ہیں اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے تاہم سوشل میڈیا کے ذریعہ بھارت کا مکروہ، بھیانک اور خونی چہرہ دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حالات کو سیاسی تنازع کا رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ سیاسی تنازعات کیا گولیوں سے، بہیمانہ تشدد سے، جیلیں بھرنے سے، عفت مآب خواتین کی عزتیں لوٹنے سے اور گھروں کو تباہ و نذر آتش کرنے سے حل کئے جاتے ہیں۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ تنازعہ کے اصل فریقین (کشمیری عوام اور پاکستان) کو بات چیت سے ہی باہر رکھ کر۔
اس مرتبہ 27 اکتوبر کو کشمیری اور پاکستانی عوام نے دنیا کے مختلف شہروں میں بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر کے، جرمنی میں ملین مارچ اور برلن میں احتجاجی ریلی نکال کر عالمی برادری کو متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، برلن میں ہونے والا مظاہرہ معنویت کے لحاظ سے بہت اہم ہے جس طرح دیوار برلن نے مشرقی اور مغربی برلن میں بسنے والے خاندانوں کو تقسیم کر دیا تھا اسی طرح مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں رہنے والوں کے مابین کنٹرول لائن تقسیم کی دیوار بن گئی ہے اور جس طرح دیوار برلن گری ہے انشاء اللہ اسی طرح یہ کنٹرول لائن کا بھی خاتمہ ہو گا اور دونوں حصوں کے لوگوں کی قلبی آرزو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ میں حقیقت کا رنگ بھرے گا۔مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارت نے افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سے مل کر بلوچستان کے حالات خراب کرنے کا جو ناپاک منصوبہ بنایا تھا۔ پاک فوج نے خاک میں ملا دیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگتی اور بگتی ضلع کونسل کے چیئرمین وڈیرہ غلام نبی بگتی کا یہ دعویٰ جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پورے بگتی کے علاقے میں ایک سو ایک فیصد امن ہے۔ نواب اکبر بگتی کے دور میں تو بگتی کا علاقہ نوگو ایریا تھا اور دہشت گردی نے تو بلوچستان کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے کر ’’نو گو ایریا‘‘ میں تبدیل کر دیا تھا۔ پاک فوج نے اپنی اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ اہلیت کا مظاہرہ کر کے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا لیا اور محب وطن بلوچ رہنماؤں کے بھرپور تعاون اور کوششوں سے گمراہ کئے جانے والے افراد کو اس حقیقت سے روشناس کرا دیا گیا کہ گمراہ کرنے والوں کا مقصد حقوق دلانا نہیں بلکہ پاکستان دشمنوں کے مقاصد کی آبیاری ہے اور اس کے بدلے وہ عیاشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فراریوں نے ہتھیار ڈال کر خود کو قومی دھارے میں شامل کر لیا ہے بلاخوف تردید براہمداغ بگتی اور حربیار مری کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ رہ گئے ہیں۔
کوئٹہ میں گزشتہ دنوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے خلاف دھمکی آمیز پوسٹر چسپاں کئے گئے، کسی بھی شہر میں، رات کے کسی بھی وقت، چند خاص مقامات پر کسی بھی نوعیت کے ایک ڈیڑھ درجن پوسٹر آویزاں کرنے کیلئے صرف دو تین افراد کافی ہیں البتہ اس سے یہ تاثر ضرور جنم لے سکتا ہے کہ کسی گروہ، گروپ، یا تنظیم کا وجود بہرحال برقرار ہے۔ لیکن اس تاثر کی ازخود نفی اسی طرح ہو گئی کہ نہ تو جن کے خلاف دھمکیاں تھیں انہوں نے انہیں درخور اعتنا سمجھا نہ ہی کوئٹہ کے شہریوں نے انہیں قابل توجہ سمجھا۔ براہمداغ بگتی نے جنیوا میں جو پاکستان مخالف پوسٹر لگائے تھے بلوچستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسے کسی ایک شخص کی جانب سے بھی حمایت نہ ملی۔ بلوچستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے یہ پول کھول دیا تھا اس لئے براہمداغ اور حربیار کا اس پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہونا لازمی تھا پھر یہ بھی پریشانی کہ را‘ این ڈی ایس اور موساد کے ذریعہ بھارت نے لاکھوں ڈالر دے کر یہ ڈرامہ رچایا تھا۔ بلوچستان میں اس کے من چاہے نتائج نہ نکلنے پر بھارت کی نظروں میں بھی ان دونوں کی اہمیت کم ہوتی ہے اس لئے وہ انہیں ’’مفید گھوڑے‘‘ نہ سمجھ کر اب ان پر داؤ لگانے سے گریز کر سکتا ہے ایسا ہوا تو سوئزرلینڈ‘ لندن اور دیگر ممالک سمیت بھارت میں سیون سٹار ہوٹلوں میں قیام سمیت دیگر عیاشی کے شب و روز کا خاتمہ ہو جائے گا اس لئے اگر انہوں نے اپنے دو چار لوگوں سے میڈیا کے خلاف پوسٹرز لگوائے تو یہ ان کی اس جھنجھلاہٹ کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ادھر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھارت کے ایما پر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ افغانستان اور بھارت کے ٹرکوں کو واہگہ کے راستے ایک دوسرے ملک میں آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ ظاہر پاکستان کے لئے اس مطالبہ پر تحفظات قدرتی بات ہے۔ چنانچہ انکار پر پاکستانی ٹرکوں کا افغانستان میں داخلہ بند کر دیا اس سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے 70 ہزار ٹن گندم ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعہ افغانستان پہنچا دی۔ افغانستان کے لئے پاکستان کی برآمدات پہلے ہی چار ارب سے کم ہو کر ایک ارب رہ گئی ہیں۔ بھارت کے اس اقدام سے برآمدات پر مزید منفی اثر پڑے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایرانی سفیر سے سوموار کی ملاقات کو بعض حلقوں میں اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کا سلامتی سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس حوالے سے یا اس مرحلہ پر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کہاں ہیں۔ عام ذہنوں میں اس سوال کا کلبلانا بھی فطری امر ہے۔