امریکہ کو پاکستان سے دو ٹوک جواب
2001ء میں افغانستان پر قبضے کے بعد معاشی طور پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ممکن ہے اندرون خانہ کچھ معاشی مفادات حاصل کئے ہوں لیکن عسکری لحاظ سے امریکیوں کے حصے میں سوائے شرمندگی اور ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکیوں نے دنیا کو افغانستان کی صورتحال میں الجھا کر فلسطین کی آزادی جیسے مسئلے اور فلسطینیوں پر یہودی افواج کے مظالم پر پردہ ڈال دیا۔ اپنے معمولی مفادات کے لئے مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو بھارتی منشا کے مطابق دہشت گردی سے تعبیر کرنے کا بہانہ اختیار کیا گیا تو ساتھ ہی اسی عرصے میں عراق و لیبیا جیسے آزاد ممالک کی مکمل تباہی کے ساتھ ہی دیگر عرب ریاستوں کے سروں پر بھی تلوار لٹکا کر انہیں اپنی سلامتی کی فکر میں اس انداز سے مبتلا کیا گیا کہ اب ان کا مسئلہ فلسطینیوں کی ناکہ بندی‘ غزہ میں اسرائیلی طیاروں کی بمباری اور یہودی افواج کے ذریعے معصوم فلسطینی بچوں کا قتل نہیں بلکہ اپنا تحفظ ہے۔ اسی طرح جنوبی ایشیا میں بھی افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کی آڑ میں پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگانے کی کوشش کی گئی جس کا بنیادی مقصد چین کے خلاف اپنے منصوبوں کی تکمیل تھا لیکن اس کا خمیازہ پاکستان نے بدترین دہشت گردی کی صورت میں بھگتا۔ آج اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پاکستان میں روزانہ کے حساب سے ہونیوالے تباہ کن خودکش دھماکے اور اسکے نتیجے میں ہونے والی شہادتیں سب ڈراؤنا خواب سا لگتا ہے کہ عسکری تنصیبات اور فوجی افسران و جوانوں کے ساتھ ہی بازار میں خریداری کرتی خواتین و بچوں ‘ بڑوں اور بوڑھوں سمیت ہزاروں بے گناہوں کو ناحق قتل کیاگیا‘ عبادت گاہیں‘ تعلیمی ادارے‘ ہسپتال‘ عدالتیں یہاں تک کہ تفریح کیلئے بنائے گئے پارک بھی بربریت اور وحشت کی نظر کر دیئے گئے۔ صرف اس لئے کہ امریکیوں کو چین کیخلاف بھارت کی ضرورت تھی اور بھارت اپنی ان خدمات کے بدلے پاکستان کی بلی چاہتا تھا لیکن پاکستان نے تمام تر مالی اور جانی نقصانات کے باوجود دہشت گردی کیخلاف جس انداز سے جنگ کا آغاز کیا اور پاک فوج نے جس جرات و شجاعت اور پیشہ ورانہ عسکری مہارت سے پاکستان میں قائم دہشتگردوں کے خفیہ ٹھکانوں کا صفایا کیا۔ پاکستان کے ان دشوار گزار پہاڑوں پر مشتمل قبائلی علاقوں میں جہاں تاریخ گواہ ہے کہ آج تک دنیا کی کوئی فوج کامیاب نہیں ہو سکی۔ پاک فوج نے وہاں موجود جدید اسلحہ سے لیس ان تمام دہشتگردوں کو مار بھگایا جنہیں بھارت و امریکہ نے افغانستان میں قائم تربیتی کیمپوں میں تربیت کے عمل سے گزار کر پورے پاکستان میں تباہی پھیلانے کیلئے تیار کیا تھا۔
پاکستان کو دہشت گردوں کیخلاف حاصل ہونے والی یہی تاریخی کامیابیاں ہیں جس نے امریکہ جیسی بڑی قوت کو اس حد تک پریشان کر دیا ہے کہ وہ سفارتی آداب بھول کر پاکستان کو دھمکانے پر اتر آیا ہے تو ساتھ ہی اس کا پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ امریکہ کیلئے اس سے بڑی شرمندگی اور کیاہو گی کہ جب 24 اکتوبر 2017ء کو امریکی وزیر خارجہ چند گھنٹوں کے دورے پر کابل سے پاکستان پہنچے تو ہوائی اڈے پر انہیں خوش آمدید کہنے کیلئے کوئی بڑا سرکاری عہدیدار موجود نہیں تھا۔ اور باہمی مذاکرات کے لئے بھی وزیراعظم‘ آرمی چیف و دیگر حکومتی شخصیات نے علیحدہ علیحدہ ملنے کی روایت کو پرے پھینکتے ہوئے ریکس ٹیلرسن کی سربراہی میں امریکی وفد سے مشترکہ بات چیت کی اور ایک ہی مؤقف دہرایا کہ’’نو مور‘‘ اس سے قبل کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان سے متعلق جس طرح کا لب و لہجہ اختیار کیا۔ پاکستان کا سخت ناپسندیدگی پر مبنی جواب تو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر سرد قسم کے استقبال کی صورت میں امریکہ کو مل ہی گیا لیکن اس دوران امریکی میڈیا نے کابل میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات کے حوالے سے ایک ہی طرح کی 2 تصاویر منظر عام پر لا کر افغان حکومت کی آزاد حیثیت اور افغانستان پر امریکی سرپرستی میں افغان حکومت کی گرفت سے متعلق بہت سے سوالات اٹھا دیئے۔ ایک تصویر افغانستان میں موجود امریکی فوج کے شعبہ اطلاعات کی طرف سے جاری کی گئی جس میں بگرام بیس پر ملاقات کے کمرے میں دیوار پر آویزاں ’’ڈیجیٹل کلاک‘‘ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ جبکہ افغان حکومت کی طرف سے میڈیا کو جاری کی گئی تصویر میں ’’فوٹوشاپ‘‘ کے ذریعے ’’ڈیجیٹل کلاک‘‘ کو غائب کر کے تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مذکورہ ملاقات کابل کے ایوان صدر میں ہوئی ہے۔ اس ہیرا پھیری کی بنیادی وجہ گزشتہ ماہ 27 ستمبر کو امریکی سیکرٹری ڈیفنس جنرل ریٹائرڈ جیمز میٹس کی کابل کے ہوائی اڈے پہنچنے پر ہونیوالے راکٹ حملے کو قرار دیا جا رہا ہے جس نے امریکیوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ جنرل میٹس کے مذکورہ دورے کو خفیہ رکھا گیا تھا لیکن جنرل میٹس کی آمد کی خبر لیک ہونے کا معمہ حل نہ ہو سکا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان جنکے بارے میں مغربی میڈیا اور امریکی دفاعی تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے ہے کہ پچاس فیصد سے زائد افغانستان پرافغان طالبان کا کنٹرول ہے تو یہ طالبان کابل شہر میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے علاوہ افغانستان کے قومی اداروں میں بھی اپنے ہمدرد پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
یہاں ایک اور سوال بڑا اہم ہے کہ امریکی وزارت خارجہ افغان صدر اشرف غنی کو امریکی بگرام ایئربیس پر طلب کر کے اسکے ساتھ ملاقات کر چکے تھے تو پھر چند گھنٹے پاکستان گزارنے کے بعد جب ریکس ٹلرسن بھارتی یاترہ پر روانہ ہوئے تو افغان صدر کو بنا کسی پہلے سے طے شدہ شیڈول کے بھارت پہنچنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور جب نیو دہلی میں امریکی وزیر خارجہ‘ افغان صدر میزبان بھارتی وزیراعظم اکٹھے ہوئے تو اس سہ فریقی ملاقات کو کیمرے کی آنکھ اور میڈیا سے کیوں اوجھل رکھاگیا۔ یہی حکمت عملی اگر امریکی فوج اور افغان حکومت ریکس ٹلرسن و اشرف غنی کی بگرام بیس پر ہونے والی ملاقات کے موقع پر اختیار کرتے اور جعلی و اصلی تصاویر سے دنیا کو محظوظ نہ کرتے تو افغان صدر اشرف غنی کی عزت کے ساتھ ہی افغانستان پر کنٹرول کے حوالے سے امریکہ کا بھرم بھی رہ جاتا لیکن ان کا مسئلہ اس وقت پاکستان پر دباؤ ڈال کر اپنے مقاصد حاصل کرنا اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و عسکری قوت کے آگے بند باندھنا ہے جس کیلئے امریکہ کو کوئی راہ نہیں سوجھ رہی۔ امریکہ کے کاروباری حلقوں میں اس خبر نے ہلچل برپا کر رکھی ہے کہ چند ماہ کے اندر ڈالرکے مقابلے میں چین اپنی کرنسی ’’لانچ‘‘ کرنے جا رہا ہے جس کے بعد عالمی سودے چین اسی کرنسی میں کریگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کو نیو دہلی پہنچ کر بھارت کی پیٹھ تھپکنے کی ضرورت پیش آئی۔ بھارت سے آنے والی خبروں کے مطابق ریکس ٹلرسن کی بھارتی وزیراعظم و دیگر وزرا اور دیگر سرکاری حکام سے ملاقاتوں میں چین ہی موضوع بحث رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کو انتہائی غیر سفارتی انداز میں بھارت کو خطے کا لیڈر بنانے جیسا مضحکہ خیز بیان دینا پڑا۔ ریکس ٹلرسن نے بھارت کو فطری اتحادی قرار دیا اس حد تک تو ٹھیک ہے لیکن وہ خطے کا تھانیدار وہ کیسے بن سکتا ہے۔ اس کا بخوبی اندازہ بھارت کو بھی ہے کہ وہ نہ صرف داخلی طور پر تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کی زد میں ہے تو ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں دو برسوں سے تیزی پکڑنے والی آزادی کی پرامن لہر نے بھارتی فوج کے حوصلوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ امریکہ کو ا حساس ہونا چاہئے کہ ستمبر کے آخر میں امریکی سیکرٹری دفاع جنرل میٹس کی نیو دہلی آمد پر بھارت نے اپنی فوجیں افغانستان بھیجنے سے کیوں انکار کیا تھا۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کیلئے تعاون کی آڑ میں پاکستان میں اپنے خفیہ اداروں یا پاکستان میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعے کسی نئے انداز سے دہشت گردی کو فروغ دے گا تو یہ اسکی بھول ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کو دئیے گئے جواب ’’نو مور‘‘ میں بھارت کیلئے بھی پیغام موجود ہے کہ بہت ہوگیا۔ پاکستان دشمنوں کیخلاف پوری قوم متحد ہے اور اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ امید ہے ایکس ٹلرسن نے بھارت میں نریندر مودی کو اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات اور اس میں فوج و حکومت کی اکٹھے موجودگی کی بابت ضرور آگاہ کیا ہوگا۔