• news
  • image

گوادر ۔ نسیم بحری کا دروازہ

ملک فیروز خان نون وزیراعظم پاکستان (1958) میں ’’مسقط‘‘ کے ساتھ گوادر کی خریداری کا عمل مکمل ہوا اور گوادر کو بلوچستان کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس وقت گوادر میں چند سو ماہی گیر جھونپڑیوں میں رہا کرتے تھے۔ آج بھی ان کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے اگر پاکستان کے زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات باآسانی سمجھ میں آجائے گی کہ ایک گوادر ہی نہیں تمام صوبوں کی شہری اور دیہاتی علاقوں میں منصوبہ بندی کا زبردست فقدان نظر آتا ہے۔ بڑے بڑے شہروں کراچی، لاہور، حیدر آباد، ملتان وغیرہ میں۔ پُرآسائش زندگی گزارنے والوں کی بستیاں علیحدہ ہیں، غریب غربا کٹڑیوں، جھونپڑیوں وغیرہ میں زندگی کے دن لشٹم پشٹم گزار رہے ہیں ایک طرف 500 روپے کا ایک کپ چائے پینے والوں کے بڑے بڑے ہوٹل ہیں جہاں ایک رات گزارنے کے لئے 10 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ عام آدمی دس بیس روپے میں اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ 5 سے 10 ہزار روپے ماہوار آمدنی میں فیملی کے ساتھ کیسے وقت گزارتا ہوگا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے پاکستانی معاشرے کے حکمران طبقے نے یہ حالات دانستہ پیدا نہیں کئے ان کی بھوک ہوس لالچ نے ملک کو عدم توازن سے دوچار کر دیا ہے۔ بلوچستان کے نامور ادیب دانشور آغا گل کی یہ تحریر غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے۔ 

’’گوارد نسیم بحری کا دروازہ یا دوزخ کی لو کیسے بن گیا ہے؟ وطن عزیز کی بندرگاہ گوادر اقوام عالم کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس کی تعمیر سے ایرانی، خلیجی بندرگاہوں کے علاوہ بھارتی بندرگاہوں پر بھی زد پڑنے کے امکانات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ علاوہ ازیں چین جوکہ پہلے ہی عالمی منڈی پہ چھایا ہوا ہے اسے گرم پانیوں تک رسائی مل جائے گی۔ اس کی گوادر میں موجودگی بجائے خود ان کے لئے حربی خطرہ (Strategic Threat) بھی ہے۔ جس کے باعث گوادر میں پہلے سے مفاداتی گروہ (Stake Holders) اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جس میں بھارت کا منفی کردار نمایاں ہے۔ جو کسی صورت پاکستان کو ایک مضبوط اور معیشت کے لحاظ سے مستحکم دیکھنے کا روادار نہیں۔ مسئلہ کشمیر پر برابری کی سطح پہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق مانگنا بھی اسے ناگوار گزرتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی ترقی اور اس کے ذریعے وسط ایشیا و چین کی تجارت پاکستان اور پاکستانی عوام کو معاشی فوائد دے گی۔ ان کا معیار زندگی بھی بلند ہوگا۔ معاشی استحکام سے پاکستان عسکری طور پر بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گا یہ پہلو بھی بھارت کے زیر نظر ہے۔ امریکہ بھی گوادر میں چین کی موجودگی اور بذریعہ پاکستان چینی مال کی ترسیل پسند نہیںکرتا۔ امریکہ اور بھارت کی ابتداء سے ہی کوششیں رہی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم رکھا جائے اور مفاد پرست پاکستانی سیاستدانوں کے ذریعے عسکری قیادت کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے۔ بھارت تو دبائو ڈالنے کے لئے انٹرنیشنل بائونڈری کی خلاف ورزی بھی کرنے لگتا ہے تاکہ فوج کی توجہ کرپٹ سیاستدانوں سے ہٹ جائے۔بلوچستان میں ایک پروکسی وار دیہایوں سے جاری ہے۔ دراصل 1912ء میں انگریزوں نے ایک قانون کے ذریعے بلوچستان کو سرداروں اور نوابوں میںبانٹ کے رکھ دیا۔ انہیں اختیارات تفویض کیے وہ اپنے اپنے راجواڑوں (Royal Domains) میں خودمختار ہیں انہیں مکمل انتظامی اختیارت کے ساتھ عدلیہ کا تاج بھی بخش دیا۔ بلوچستان صدیوں سے رواجی قانون (Customary Law) کے تحت نظام چلاتا ہے اور یہاں سزائے موت کا تصور بھی نہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد انہی سرداروں اور نوابوں کو حکومت تفویض ہوئی۔ جس کے باعث عوام یا عوامی مفادات کا تصور ہی نہ رہا۔ یوں تو سیاسی تحاریک کا آغاز 1930ء کی دہائی سے ہوتا ہے مگر عوام کسی خاطر میں نہ لائے جاتے تھے۔ بلوچستان کا مسئلہ عموماً سرداروں، نوابوں کی ناراضگی سے پیوستہ ہوتا ہے۔ وہ خوش ہوں تو امن آ جاتا ہے۔ ناراض ہوں تو امن عامہ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ کبھی خفا ہو کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں وہیں سے کٹ پتلی کا تماشہ دکھاتے ہیں۔ بات چیت ہو جائے، مطالبات مان لئے جائیں تو واپس چلے آتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ کیچ گوادر کے عوام کو اعتماد میں لیا جاتا انہیں یقین دلایا جاتا کہ سواحل پہ بندرگاہیں بننے سے ان کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ آمدنی زیادہ ہوگی۔ ان کا نہ سہی۔ ان کے بچوں کا روشن مستقبل ہوگا۔ لیکن انہیں کسی سطح پہ اعتماد میں نہیں لیاگیا۔ برسر اقتدار خاندان جو پیری مریدی کی مانند نسل در نسل چلتے ہیں۔ موروثی سیٹوں پر قائم رہنے والے بھی تمام مفادات حاصل کرتے ہیں۔ کہنے کو تو گوادر پہ چار ارب خرچ کیا گیا لیکن اس کے اثرات دکھائی نہیں دیئے۔ گوادر کے عوام کو خدشہ لاحق ہے کہ جس طرح امریکیوں نے اپاچی قبائل کو دھکیل کر ملیامیٹ کر دیا۔ ان کا تشخص ختم ہو جائے گا۔ ان کا کلچر تہذیب و ثقافت مٹ جائے گی۔ غالب کی مانند بلوچستان کی حکومت بھی قرض کی مے پینے کی عادی ہے۔ اوور ڈرافٹ کا چسکہ ایسا پڑا کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ ایک وزیر اعلیٰ نے تو آٹھ ماہ کے صوبائی ریونیو سے تیز رفتار جہاز خرید لیا۔ چوبیس سالہ لڑکی کو صوبائی مشیر بنا لیا۔ ایسے میں عوام کی بات کیا ہوگی۔ اگر ہائی وے بناتے ہوئے متعلقہ تعمیراتی ادارے کو پابند کیا جاتا کہ چھوٹے چھوٹے کام لاتعداد لوگوں میں بانٹے جائیں مثلاً سڑک کے ساتھ مٹی کی بھرائی یا گول پتھر لگانا۔ کوئی اپنے ٹریکٹر سے کام لیتا تو کوئی گدھا گاڑی پہ مٹی ڈھوتا۔ انہیں احساس شمولیت اور اپنائیت کے علاوہ اپنی ضرورت کا روپیہ بھی ملتا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ عوام اور خواص الگ ہی رہے۔ جوکہ کسی بھی معاشرے کے لئے قطعاً فائدہ مند نہیں ہوسکتے۔ گوادر کے عوام کی لاتعلقی (Alienation) کے منفی اثرات ترقی کی راہ میں مائل ہیں۔ جس کے باعث وہ نہایت ہی بیگانگی سے عالمی طاقتوں کی گوادر میں کبڈی دیکھنے کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان سے زمین ہتھیانے کے لئے اول تو بندوبست اراضی ہی منسوخ کر دیا گیا اور پھر مجبور کیا گیا کہ جن علاقوں پہ وہ قابض ہیں ان کی ملکیت کے دستاویزی ثبوت پیش کئے جائیں۔ غیر تعلیم یافتہ مچھیرے وہ قدیم دستاویز کیسے پیش کرتے جو نسل در نسل سینوں میں ہی منتقل ہوتی چلی آئیں ہیں لہٰذا ان کی زمینوں کا نیلام عام ہونے لگا۔ جمعہ بازار لگا دیا گیا۔
سمندروں سے کھیلنے والے طوفانوں سے لڑنے والے بہادر ہوا کرتے ہیں۔ بہادر لاکھ کمزور اور تنہا سہی اس کا غصہ رنگ لاسکتا ہے۔انیسویں صدی کے نصف حصہ میں شاہرگ اور مچ سے کوئلہ نکالنے کا عمل شروع ہوا جوکہ دخانی انجنوں کے لئے ضروری تھا۔ یہ کھیل پہلے بھی کھیلا جا چکا تھا۔ علاقہ کی ترقی پہ ایک پائی بھی خرچ نہ کی گئی۔ میچ اور شاہرگ جھگیوں اور کچے مکانوں کی آبادی رہی۔ ان ہی SHANTIES میں کان کنی کرتے کتنی ہی نسلیں گزر گئیں۔ مگرانہیں بہتر زندگی اور زندگی کی بنیادی سہولتیں نہ مل پائیں۔گوادر میں پلاننگ کی کمی ہے۔ پاکستان کے پاس پورٹ پلانر بھی نہیں ہیں۔ مقامی آبادی کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ اگر پانی کو میٹھا بنانے کی مشین لگا لیتے تو پیاسے مچھیرے مسرور ہوتے چین ایسی مشین تحفے میں ہی دے ڈالتا۔ ٹینکر مافیاکی چاندی ہے منہ مانگے نرخ پہ پینے کا پانی مہیا کرتے ہیں۔ اتنے بڑے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے ساتھ گوادر کے عوام پیاسے مرتے ہیں۔ آکڑہ ڈیم تقریباً سوکھ ہی چکا ہے۔غیر ملکی ٹرالرز بھی ان کی روزی روٹی کے دشمن ہیں ٹرالرز کے پاس جدید ترین آلات بھی ہیں۔ وسائل بھی ہیں۔ مچھلیاں پکڑنے کے وسیع جال بھی ہیں۔ جس کے باعث وہ مچھلیوں جھنگیوں وغیرہ کا بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔ کوئی ادارہ انہیں روک نہ پایا۔ اگر وہ قانونی طور پر اجازت لے کر آئیں تو حکومت کو ٹیکس بھی ملے۔ (باقی آئندہ)

epaper

ای پیپر-دی نیشن