• news
  • image

قانون اور ہماری ذمہ داریاں

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک وہاں امور زندگی کو چلانے کیلئے ضروری قوانین نہ بنائے جائیں جبکہ معاشرے کی ترقی کا انحصار ان قوانین پر عمل کرنے میں ہی ہوتا ہے آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں خوشحالی کی ایک بڑی وجہ قانون کا احترام ہے ہمارے ہاں یہ چیز ناپید نظرآتی ہے جوکہ ایک ذہنی کیفیت اور معاشرے کی اجتماعی سوچ کی بھی عکاس ہے۔ قوانین تو نہ صرف موجود ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں تاکہ انہیں وقت کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے مگر ان قوانین پر عملدرآمد ہوتا بہت کم نظرآتاہے۔قانون طاقتور کیلئے اور جبکہ غریب کیلئے اور بنادیاگیاہے جس کی وجہ سے طبقاتی تقسیم بڑھتی ہوئی نظرآتی ہے قانون کی حکمرانی صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ اس میں معاشرے کے ہرفرد کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہم دوسروں کو باتیں کرتے نظرآتے ہیں مگر اپنی ذلت پر اسے لاگو نہیں کرتے، تنقید کرنا اور مخالفت برائے مخالفت کا رجحان ہمارا شیوہ بنتا چلا جارہاہے۔بُری چیز کا الزام تو حکومت پر ڈال دیاجاتاہے مگر اگر حکومت کوئی اچھا قدم اٹھائے تو اس پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے یا پھر اس میں بھی کیڑے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے اس سلسلے میں چند ایک مثالوں سے اس معاشرتی سوچ کا احاطہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ آج کے دور میں تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور عوامی شعور میں بھی بے حداضافہ ہوا ہے سرکاری سکولوں میں بوجوہ تعلیمی معیار اور سہولیات بہت اچھی نہیں ہیں جس کے نتیجے میں عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں اخل کروانے کو ترجیح دی جاتی ہے بہت عرصے سے عوام کی یہ شکایت رہی ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان فیسوں میں بے انتہا اضافہ کردیتے ہیں جوکہ نہ صرف پہنچ سے باہر ہوجاتاہے بلکہ تعلیم کو فروخت کرنے کے مترادف ہے اس من مانی کو چیک کرنیوالا کوئی نہیں جوکہ ریاستی اداروں کی ناکامی کا کھلاثبوت ہے گزشتہ سال حکومت نے فیسوں میں اضافہ واپس لینے کوکہا تو پرائیویٹ سکول مالکان عدالت میں چلے گئے اور یہ معاملہ آج تک حکم امتناہی پر چل رہاہے۔ نتیجتاً عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔ گزشتہ ماہ حکومت نے اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی سے ایک بل منظور کرکے فیسوں میں اضافے کو سالانہ5.1تک محدود کردیا۔ اس پر تمام پرائیویٹ سکول سیخ پا ہوگئے اور ہڑتال کا اعلان کردیا۔ تعلیمی سال کے آخر میں اس طرح کی ہڑتال بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے مگر عوام اور میڈیا کی طرف سے ان سکول مالکان پر کوئی دبائو نہیں ڈالا جارہا اور نہ ہی حکومت کے اس اقدام کو اس طرح سراہاجارہاہے جیسا کہ کرنا چاہیے تھا اگر حکومت نے عوام کی امنگوں کے مطابق کوئی اقدام اٹھایاہے تو ہمیں اس کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے جیسا کہ کسی غلط اقدام پر مخالفت اور احتجاج کرتے ہیں خواتین کو مساوی حقوق دینے کی بات تو سب کرتے ہیں مگر عملاً اس سلسلے میں بہت کم ہوتے دیکھاگیاہے پنجاب اسمبلی میں جو تحفظ خواتین کا بل منظور کیاتھا تو بعض حلقوں کی جانب سے شدید غم وغصہ کا اظہار کیاگیاہے اس بل کی چند شقوں کی عملی افادیت پر تو بحث کی گئی تاکہ مزید بہتری لائی جاسکے مگر مجموعی طور پر اس کی ضرورت اور افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاتھا۔ اس سلسلے میں بھی عوام اور معاشرے کا رویہ بہت زیادہ حوصلہ افزاء نہیں بلکہ مفادات پر مبنی سیاست ہی پروان چڑھائی جارہی تھی اسی طرح بچوں سے مشقت لینا بھی ہمارے معاشرے کیلئے ایک ناسور بن چکاہے حال ہی میں حکومت پنجاب نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کی مطابق بھٹوںپر کام کرنے والے بچوں کو اس کام سے روکنے کیلئے بچوںکو اس کام سے روکنے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔ دوسرے قوانین کی طرح یہاں بھی نفاذ اور تشریح کے دوران حدود سے تجاوز کیاجاسکتاہے مگر اس قانون کی افادیت اور روح سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، بھٹہ مالکان نے ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کیاتھا مگر معاشرے کی طرف سے ان پر کوئی دبائو نہیں ڈالاگیاجو انہیں ایسا کرنے سے روکتا اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں ہی جو یہ بات ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے ہاں دوسروں کو حدف تنقید بنانا ایک عادت سی بن گئی ہے جب کوئی اچھا اقدام اٹھایاجائے تو اسے کامیاب بنانے میں معاشرے کا کردار اتنا حوصلہ افزاء نہیں ہوتا جبکہ تنقید اور احتجاج میں سب پیش پیش ہوتے ہیں ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق فوائد حاصل کرنے کیلئے کوشاں نظرآتاہے اور جب قانون پر عمل کرنے کو کہاجائے تو ہڑتالوں اور احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے تاکہ حکومت کو مجبوراً ایسے اقدامات واپس لینے پڑیں۔ سیاسی حکومتوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی مخالفت مول نہیں سکتیں لیکن اگر معاشرہ اور بالخصوص میڈیا ساتھ دے تو نہ صرف حکومتوں کو اچھے اور سخت فیصلے پر مجبور کیاجاسکتاہے بلکہ ان پر عملدرآمد کرلئے مطلوبہ عزم اور حوصلہ بھی دیاجاسکتاہے۔ صرف مخالفت برائے مخالفت اور سیاسی فوائد حاصل کرنے سے روکنے کیلئے اچھے اقدامات کی بھی مخالفت کرنا یا معنی خیز خاموشی بھی دراصل قانون کی حکمرانی کے تصور کو ناکام بنانے کے مترادف ہے یہ معاشرے کی مجموعی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر اور پریشر گروپس کو کامیاب نہ ہونے دیں اور حکومت وقت کو یہ تاثر دیں کہ اس کے ہر اچھے کام کی بھرپور حمایت اور غلط اقدام کی مخالفت کی جائیگی۔ اگر معاشرہ یکجا ہو تو تمام مفاد پر ست عناصر کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ حکومتوں کوبھی حوصلہ ملے گا کہ وہ عوام کی بہبود کیلئے مشکل اور سخت فیصلے کرسکیں نہ کہ سیاسی مفادات کے چکر میں پڑی رہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن