• news
  • image

بلوچستان کے مسائل اور سی پیک کے ثمرات

بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ‘ بیوروکریٹس‘ پالیسی ساز اور دانشور خواہ عسکری معاملات کے ہوں یا عوامی یا سیاسی سب فیوڈل کلاس کے نرم گرم آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر اعلیٰ قیمتی ہوٹلوں میں کھانا کھا کر کچھ پی پلا کر اربوں روپوں کے محلات اور بنگلوں میں بیٹھ کر بلوچستان کے غریب عوام کے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں جو کچے گھروں کیچڑ سے بھری نالیوں والی گلیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں جنہیں سلیمانی قہوہ (بلیک ٹی) کے ساتھ سادہ نان روٹی کھانی ہوتی ہے۔ زچگی گھروں میں ہوتی ہے‘ بیمار پڑیں تو ہسپتال اور ڈاکٹر نصیب نہیں ہوتے۔یہ ہسپتال بھی گاؤں سے کوسوں بلکہ سینکڑوں کوس دور کسی شہر میں کھنڈر بنے عوام کا منہ چڑاتے ہیں۔ روزگار ندارد‘ زراعت ندارد‘ فیکٹریاں ندارد‘ پانی ندارد‘ گیس اور بجلی بھی ندارد بس صدیوں پرانے دور کی زندگی بسر کرتے یہ عوام جیتے اور مرتے ہیں۔ نہ حکمرانوں کو ان کی پروا ہے نہ خانوں‘ نوابوں‘سرداروں‘ملائوں کو ان کے نام پر ملنے والے اربوں روپے کے فنڈز کہاں جاتے ہیں کسی کو پتہ نہیں۔ معدنیات سے بھرپور یہ صوبہ جس کے پاس پسنی‘ گوادر‘ اومارہ اور جیوانی جیسے سی پورٹ ہوں آج تک انگریز دور کی بنائی ریلوے لائن اور سڑک کی بدولت باقی صوبوں سے جڑا ہے اور تھوڑی بہت جو معاشی سرگرمیاں یہاں نظر آتی ہیں وہ اس کے اردگرد ہیں۔یہ کراچی تا کوئٹہ اورپشاور‘راولپنڈی تا کوئٹہ روٹ ہے۔ ورنہ اندرون بلوچستان کی حالت وہی صدیوں پرانی ہے۔ کوئٹہ بلوچستان کا دل ہے یہاں کی ترقی میں یہاں آباد پشتون‘ بلوچ ہزارہ اور پنجابی آباد کاروں (غیر مقامی) کا بہت ہاتھ ہے۔ مگر اب یہاں پنجابی اور ہزارہ خال خال ہی مخصوص علاقوں میں محدود نظر آتے ہیں۔ 70 برس سے یہ صوبہ یہاں کے حکمرانوں کی عیاشیوں اور نااہلی کی وجہ سے وہ ترقی نہ کر سکا جو دیگر صوبوں میں ہوئی۔ اب گوادر پورٹ اور سی پیک کے نام سے یہاں ترقی اور خوشحالی کا جو شہرہ ہے‘ اس سے بہت سے سیاستدانوں کی آنکھیں للچائی ہوئی ہیں۔ جہاں جہاں سے یہ سڑک گزرے گی وہاں صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی چنانچہ اب یہ حکمران اور طبقۂ اشرافیہ اس میں بندر بانٹ کے منصوبے بنا رہا ہے۔ یہاں کی ترقی پسند جماعتیں اور طلبہ تنظیمیں بھی اپنی ترقی پسندی کی راہ چھوڑ کر انہی نوابوں‘ سرداروں اور ملاؤں کی ذیلی جماعتیں اور تنظیمیں بن چکی ہیں۔ عوام کے لئے آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں۔ خود یہاں کے عوام اپنی طاقت سے بے خبر ہیں۔ حکمران جماعتیں اس بے خبری کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ہمارے عوام سے بے خبر لاتعلق دانشور اور ماہرین جو شاید کبھی بلوچستان کی سڑکوں ‘میدانوں‘ دشت اور پہاڑوں پر دو قدم پیدل نہیں چلے یہاں کے مسائل کو اشرافیہ کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کوئٹہ خضدار‘ مچ‘ سبی‘ جعفر آباد‘ لسبیلہ ‘ زیارت کچلاک‘ ہرنائی اور چمن کے فٹ پاتھوں اور ہوٹلوں میں عوام کیا کہتے ہیں‘ کیا کرتے ہیں۔یہاں کے عوام کو سی پیک سے بہت توقعات ہیں۔ مگر ہمارے ہمسائیے اور ہمارے دشمن اس کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ کسی صورت پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چلتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ یہی عناصر علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔

بات سی پیک کی ہو یا گوادر کی بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردوں کی مسلک یا علیحدگی کے نام پر کارروائیوں کی ان سب کا تذکرہ یوں گڈ مڈ کیا جاتا ہے کہ کسی کے پلے کچھ نہیں پڑتا کہ مسئلہ سیاست کا ہے۔ نوابوں، سرداروں کا یا عوام کا، یا پھر لسانی و صوبائی معاملات کا۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث علیحدگی پسند سکیورٹی فورسز، عبادت گاہوں، مذہبی تقریبات‘سرکاری تنصیبات ، ریل گاڑیوں ، مسافر بسوں کو اور غیر مقامی باشندوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کو سو فی صد ایران اور افغانستان میں مقیم بھارتی جاسوس اداروں کی طرف سے مالی امداد اور اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کا وہ حصہ جو کوئٹہ سے لے کر مکران، گوادر، پسنی، کراچی تک پھیلا ہوا ہے بلوچ علاقے کی شناخت رکھتا ہے۔ اس کی سرحد میں ایران سے ملتی ہیں وسیع بیابان، صحرائی اور پہاڑی علاقے میں آبادی بہت کم اور دور دور تک بکھری ہوئی ہے اس کو سو فی صد بند کرنا کسی طور ممکن نہیں۔ جبکہ پاکستان ابھی تک ایران کی طرف سے علیحدگی پسندوں بلوچوں کی بھارت کے تعاون سے مدد پر خاموش ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری سے واضح ہوگیا ہے کہ ایران میں مقیم بھارتی را کے ایجنٹ پاکستان کیخلاف خاص طور پر بلوچستان میں موجود بلوچ علیحدگی پسندوں سے بڑے پیمانے پر رابطے میں ہیں اور ان کی ہر طرح سے تربیت اور مدد کرتے ہیں۔ یہی صورتحال افغانستان کی طرف سے بھی ہے۔ دہشت گردوں کی وارداتوں میں ملوث مذہبی عناصر یا انتہا پسند سنی اور شیعہ اختلافات کو ہوا دے کر مذہبی مقامات کو نشانہ بناکر بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی و دیگر انتہا پسند گروپوں کو افغانستان میں موجود افغانی بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے مالی امداد اور تربیت ملتی ہے۔ بلوچستان کی وسیع سرحد کوئٹہ سے لے کر چمن تک افغانستان سے ملتی ہے۔ سنگلاخ اور دشوار پہاڑی سلسلوں میں گھری یہ سرحد کہیں سے بھی سو فی صد بند کرنا ممکن نہیں۔ بھارتی را کے ایجنٹ کھلے بندے افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔ یوں ایران اور افغانستان کی حکومتوں کے تعاون سے وہاں میں موجود بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار آسانی سے اپنے اہداف تک پہنچ جاتی ہے جسکا واحد مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو بڑا فیکٹر جو بلوچستان میں بدامنی کا باعث بنا ہے وہ افغان مہاجرین ہیں جنہیں کھلم کھلا بلوچستان میں رہنے آباد ہونے کی اجازت پہلے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے اپنا بھائی کہہ کر دی پھر ووٹ شناختی کارڈ اور پشتون قوم پرستی کا نعرہ لگانے والی محمود اچکزئی صاحب کی جماعت ان کی سرپرست بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں کوئٹہ میں غیر مقامی افراد کو وہاں سے جائیدادیں اونے پونے داموں بیچ کر نکلناپڑا۔ یہ حقیقت ہم بلوچستان والوں سے زیادہ اور کون جانتا ہوگا۔ ہمارے حکمران سیاستدان لوٹ مار پر ایمان رکھتے ہیں۔ حکومت کر کے اپنا بنک اکاؤنٹ بناتے ہیں‘ جائیدادیں بناتے ہیں۔ سفارشی نااہل افراد کو سرکاری محکموں میں بھرتی کر کے صوبے کا ستیاناس کر چکے ہیں۔ سکول‘ ہسپتال‘ کالج ہی نہیں تمام سرکاری محکموں میں سیاسی دباؤ نے تباہی پھیلا دی ہے۔ سرکاری ملازم مفت گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ سکیورٹی والے اداروں میں ایف سی بلوچستان میں قدرے زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اس کے اور پولیس اہلکار بھی کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ ان بے رحم حالات میں عوام الناس خدا کے آسرے پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عام پشتون ہوں یا بلوچ سیدھے سادھے وفا شعار لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں مکر و فریب نہیں ہوتا۔ نواب سردار خان اور ملا جو ان کے خداوند بنے ہیں۔ ان کو کسی بھی راہ پر لگا دیتے ہیں جس کا نتیجہ مذہبی سیاسی‘ لسانی اور صوبائی اختلافات کی صورت میں نکلتا ہے۔ اب آرمی عرصہ دراز سے پولیس‘ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی حکومت بلوچستان کی مدد کے لئے صوبے میں تعینات ہے۔ حالات میں قدرے بہتری آئی ہے مگر جب تک صوبے کے خان‘ نواب‘ سردار اور ملا مل جل کر اصلاح کی راہ نہیں نکالیں گے حالت نہیں بدلے گی۔ علیحدگی پسندوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی راہ نکالنا ہو گی انہیں پہاڑوں پر مارنے کی ضد نے اکبر بگٹی کی موت جیسے سانحہ کو جنم دیا ہے۔ عام آدمی کو ہنر‘ صحت‘ تعلیم‘ روزگار‘ ذرائع مواصلات‘ آمدورفت کی سہولت دینا ہو گی انہیں بااختیار بنانا ہو گا۔ دباؤ اور خوف سے نکالنا ہو گا۔ انہیں دور جدید کی سہولتوں سے روشناس کرانا ہو گا۔ بلوچستان میں امن ہو گا تو یہاں کے عوام سی پیک اور گوادر جیسے عظیم منصوبوں کے ثمرات بھی سمیٹ سکیں گے۔ ورنہ یہ ثمرات بھی چند خاندانوں اور بااثر طبقات لوٹ کر لے جائیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن