• news

قومی اسمبلی: حکومت کے پی کے‘ بلوچستان کی نشستیں بڑھانے کا بل پیش کرنے میں دوسرے روز بھی ناکام

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نیشن رپورٹ+ صباح نیوز) قومی اسمبلی میں اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور اور گوادر سے بی این پی کے رکن قومی اسمبلی سید عیسیٰ نوری نے علامتی واک آؤٹ کیا۔ حاجی غلام احمد بلور نے ایوان میں بات کرنے کی اجازت نہ دینے کے معاملہ اور سید عیسیٰ نوری نے کوئٹہ سے بلوچ خواتین کے لاپتہ ہونے کے واقعہ کے خلاف علامتی واک آؤٹ کیا۔ محمود اچکزئی اور جماعت اسلامی کے ارکان نے انکا ساتھ دیا۔ متعدد دوسرے ارکان نے بھی خواتین کی گمشدگی کے واقعہ پر اظہار تشویش کیا۔ ایوان میں متعدد ارکان نے نکتہ ہائے اعتراض پر اظہار خیال بھی کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ اگر ڈاکٹر اﷲ نذر بلوچ نے کوئی گڑ بڑ کی ہے تو ان کو پکڑا جائے۔ اب گھریلو خواتین کو اٹھانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ پاکستان اﷲ تعالیٰ کے نام پر بنا ہے۔ یہاں عورت کی عزت ہونا چاہئے۔ ہم اس پر سخت احتجاج کرتے ہیں۔ ڈپی سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان میں موجود وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ سے کہا کہ ایوان میں بلوچستان کے اندر خواتین کی گمشدگی کے واقعہ پر اظہار تشویش کیا گیا ہے۔ اس واقعہ میں اگر وفاقی ادارے یا صوبائی ادارے ملوث ہیں تو اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی وزیر اس سلسلہ میں حکومت کو آگاہ کریں۔ رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین کا غائب ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ بلوچستان میں اس طرح کے حالات ہونگے۔ تو بہتری کے توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ سی پیک کا دارو مدار بھی بلوچستان کے حالات پر ہے۔ ملک کے اندر پانی کی کمی ہے۔ سندھ کی زمین سمندر میں جا رہی ہے۔ اس سے بچاؤکیلئے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ عیسیٰ نوری نے کہا کہ بلوچستان میں ایک کالعدم جماعت کے رہنما کی خواتین کو بچوں سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ جو انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی لال چند نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے۔ حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ کوئٹہ میں جو کچھ ہوا وہ زیادتی ہے۔ کسی کا رشتہ دار ہونا جرم نہیں ہے۔ ملک کے اندر بنیادی حقوق موجود ہیں۔ اے این پی آج چھوٹی جماعت بن گئی ہے۔ مگر 1990ء سے 2008ء تک ہمارے ارکان کی کافی تعداد ہوتی تھی اور جس جماعت کی 2013ء سے قبل کوئی سیٹ نہیں تھی آج صوبے میں حکمران جماعت بن گئی ہے۔ عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ پانی کی قلت ہے۔ ملک میں پانی اور ماحول کی پالیسی نہیں ہے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم ہونا چاہئے۔ ڈیم تعمیر نہیں کئے جا رہے۔ پنجاب میں فصلوں کو جلانے کی وجہ سے سموگ ہوئی ہے۔ تین صوبے کالا باغ ڈیم پر ناراض ہوتے ہیں مگر یہ پوچھا جائے کہ پانی کی قلت کے مسئلے کا حل کیا ہے ؟ چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ علاوہ ازیں پمس کو شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے علیحدہ کرنے کا بل سوموار کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔ علاو ہ ازیں نئی مردم شماری کے مطابق صوبوں میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کو آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں مطلوبہ تعداد کی ارکان کی عدم موجودگی کے باعث بل موخر ہو گیا۔ وزراء پریشان دکھائی دئیے۔ آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کے ایجنڈا آئٹم کی باری آئی تو وزیر قانون و انصاف زاہد حامد بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی دیگر وزراء کو دیکھتے رہ گئے۔ کوئی آئینی ترمیم بل پیش کرنے کے لئے نہ اٹھا۔ حکومت بل کی منظوری کیلئے مطلوبہ تعداد پوری نہ کر سکی جس کی وجہ سے دوسرے روز بھی بل پیش کرنے میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوان میں اس وقت کل ارکان کی تعداد 50تھی جبکہ ترمیم کیلئے 228 ارکان کی منظوری لازمی ہے اور قومی اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے کم از کم 86ارکان کی موجودگی ضروری ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی بیٹی دینا واڈیا کے انتقال پر قومی اسمبلی میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ دریں اثناء صدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف نے ان کے بیٹے نسلی واڈیا کو اپنی، حکومت پاکستان اور عوام کی طرف سے تعزیتی خطوط ارسال کئے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن