تخت سے انکار تک
سیاست کے بازار میں صبح و شام ایک ہی ”موضوع“ ہر ایک کی زبان پر تھا۔ نوازشریف وطن واپس آئیں گے یا نہیں۔ ہر کوئی اسی سوال کو لے کر بیٹھا ہے اور اپنا اپنا راگ آلاپ رہا ہے۔سمجھ نہیں آتی کہ اس کے علاوہ بھی ملک کو کوئی مسئلہ درپیش ہے کہ نہیں۔
میاں نوازشریف رب کعبہ کے حضور اپنی والدہ کے ساتھ سربسجود تھے۔ ان کی رفیق حیات محترمہ کلثوم نواز کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ کیا نوازشریف صرف سیاست دان ہے۔ اس کی ذاتی زندگی کوئی نہیں۔ اس کا خاندان نہیں ہے۔ وہ محبت اور نفرت، پیار اور عشق کے جذبات رکھتا اس کی زندگی میں کوئی نجی مصروفیت نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ہم نوازشریف کے پیچھے ہی کیوں پڑے ہوئے ہیں بابا کچھ دنوں کے لیے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس سے اپنی باریک بین دور بین ہٹا لو عدالت نے اس کوفارغ کردیا وہ اپنی رفیق حیات کے پاس لندن گیا آپ نے وہ قصے بنائے وہ کہانیاں گھڑیں۔یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے۔ وہ پہلے بھی واپس آیا تھا وہ اب بھی واپس آئے گا۔وہ پہلے بھی نہ گھبرایا، اس نے ہمیشہ تخت سے انکار تک کا سفر طے کیا ۔ زندہ رہا تو دوبارہ وہ یہ سفر طے کرے گا۔ ایک واری فیر۔ شیر۔ خلق خدا کی آواز کو نقارہ خدا سمجھو۔ ایک ٹی وی چینل پر تین بڑے صحافی اپنی تمام تر صلاحیتوں دانش اور تجربے کی بناءپر مختلف زاویوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ شریف خاندان میں اختلافات اپنی انتہا کو پہنچ گئے ہیں بس کچھ لمحوں کے بعد بریکنگ نیوز میں آپس کے قتل و خون کی خبر نشر ہوگی۔ پارٹی ختم ہوگئی ہے کوئی 100 کے قریب مسلم لیگی ایم این ایز بغاوت پر اُتر آئے ہیں اور کچھ لمحوں کی بات ہے کہ بغاوت کرنے والے غول در غول ‘ گروہ در گروہ اعلان بغاوت کردیں۔ سینئر وزراءبھی اس بغاوت میں شریک ہونگے۔ ایک ٹی وی چینل اسحاق ڈار کے فرار کی چشم دید کہانی بیان کررہا ہے۔ اتنی جُزیات کے ساتھ جیسے پی ٹی وی کے کمنٹیٹر پاکستان سری لنکا میچ کا لائیو تبصرہ فرما رہے ہوں۔ بلکہ کبھی تو یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ اینکر کوئی نجومی باوا صاحب ہیں جو مستقبل کا حال یوں بیان کررہے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے مستقبل دور اور قریب کی تمام کارروائی ہورہی ہے اور وہ ہر پل کی خبر کی لائیو کوریج کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسحاق ڈار صاحب کے چہرے کی سلوٹیں بھی گن گن کر بتا رہے ہیں مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ اتنی صلاحیتوں کو حکومت ضائع کررہی ہے مستقبل کی خبر رکھنے والے ”درویش“ ہمارے ہاں موجود ہیں پھر بھی دہشت گردی ہوجاتی ہے۔ ڈاکو لوٹ مار کرجاتے ہیں، قتل ہوجاتے ہیں۔ ہمیں تو ایک سپاہی رکھنے کی ضرورت نہیں اربوں روپے مفت میں خرچ ہورہے ہیں ان تجزیہ نگاروں کی صلاحیتوں سے مستفید ہونا چاہیے۔ لگتا ہے یہ بھی کوئی گہری سازش ہے جس میں حکومت اور شریف خاندان ملوث ہیں۔گھبرا کر میں ٹی وی چینل کا ریموٹ اٹھاتا ہوں اور کسی آوارہ کی طرح چینل گردی کرنا شروع کردیتا ہوں۔ اسی دوران ملک فیصل‘ حاجی چن اور بیگ صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور آتے ہی مبارکباد دیتے ہیں ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں خادم اعلیٰ نے کہا ہے کہ ملک سے اندھیرے ختم ہوگئے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہوگیا ۔ میں ہیڈ لائنز دیکھتا ہوں وزیراعظم قوم کو خوشخبری دے رہے ہیں آئندہ ماہ بجلی کے 3400 میگاواٹ قومی ضرورت سے زیادہ ہیں۔ میرے منہ سے زندہ باد کا نعرہ پھر بلند ہوتا ہے۔ طبیعت کی افسردگی اور سیاسی حبس کی گھٹن دور ہوگئی۔ طبیعت کھل سی گئی۔ کچھ دیر بعد احباب اپنے گھروں کو اور میں کمرے میں تنہا پھر ٹی وی کے سامنے .... پھر وہی راگ وہی نوازشریف۔ وہی پیشن گوئیاں۔ پنڈی کے شیخ صاحب باغیوں کی ایک لسٹ لیکر آئے ہیں اور جوش خطابت میں اس کو لہرا کر اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں اس شعبدہ بازی سے باغی ہوکر میں ٹی وی ہی بند کردیتا ہوں اور چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔
منتشر خیالات، خوشی اور دُکھ کی کیفیت‘ ذہن میں الجھاﺅ اور طبیعت پر بھاری پن۔ میری شعوری آنکھ کیا دیکھتی ہے کہ اقبال مسکراتے ہوئے میرے سامنے بیٹھے ہیں کلیات اقبال سے انہوں نے ایک صفحہ میرے آگے کردیا اور بولے تیرے لیڈر کے لیے ہے خود بھی پڑھ اور اسے بھی پڑھا۔ میں ان کے ہاتھ سے کلیات اقبال لیکر پڑھنا شروع کرتا ہوں لکھا۔
تورہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول!
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول!
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز!
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول!
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں!
محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول!
صبح ازل پہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول!
باطل دوئی پسند ہے‘ حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول!
اقبال کہتے ہیں جن لوگوں کے دل عشق سے معمور ہوں‘ وہ دنیا کی کسی چیز سے دل نہیں لگا سکتے اور بڑی سے بڑی نعمت اور دولت بھی ان کے حوالے کردی جائے تو اسے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے اور اپنے مقصد میں لگتے رہتے ہیں۔اے پانی کی ندی! تو پھیل کر تندو تیز دریا بن جا۔ تجھے کنارہ بھی ملے تو اسے ٹھکرا دے۔ عشق کا خاصہ یہ ہے کہ کسی جگہ نہ رُکے ہر وقت بڑھتا اور پھیلتا جائے۔
تو دنیا کے بت خانے میں گم نہ ہو اس کے عیش و عشرت اور رنگا رنگی میں کھو نہ جا۔ تیرے نصب العین کا تقاضا ہے کہ ان سامانوں کو ختم کردے ان کی دلکشی سے محفوظ رہ۔ جو لوگ بلند مقاصد لے کر آتے ہیں ان کو کسی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ جب دنیا بن رہی تھی تو حضرت جبرئیل ؑ نے مجھے یہ سبق پڑھایا تھا کہ جو دل عقل کا غلام ہو اسے قبول نہ کر۔ عشق کے لیے آزمائش کا وقت آجائے تو راہ حق کا مسافر وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو حق پر ہو خواہ اس کا نتیجہ کوئی بھی نکلے۔ باطل ایسے موقعوں پر طرح طرح کے بہانے ڈھونڈ لیتا ہے لیکن حق کے سوا غیر حق کی اطاعت قبول نہیں کیونکہ حق کا کوئی شریک نہیں اگر تو اپنے عشق کے دعوے میں مسیحا ہے تو صرف حق ہی کے لیے زندگی وقف رکھ۔ بڑی عجیب بات ہے نوازشریف جب اسلام آباد سے لاہور آرہے تھے ہمارا استقبالیہ نعرہ تھا۔ ”ہمارا عشق ہے پاکستان“۔