• news
  • image

گلگت بلتستان میں بھارتی سازشیں

جب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر کا اعلان ہوا، بھارت اور اسکی خفیہ ایجنسی راءنے گلگت بلتستان میں اپنی تخریبی کاروائی اور پر وپیگنڈا مہم میں تیزی پیدا کر دی ہے۔1959 میں جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا انعقاد ہوا اور ہزاروں چینی انجینئر اور مزدور پاکستانی انجینئروں اور مزدوروں کے شانہ بشانہ20برس تک اسی منصو بے پہ کام کرتا رہے توبھارت کوکوئی عذرنہ تھا۔ شاہراہ قراقرم کے علاوہ انسانی محنت کے اس نادر نمونے کو جو دنیا کے دشوار ترین خطے اور انتہائی بلند اور پیچیدہ گزر کا ہوں پہ تعمیر کی گئی کو چین۔ پاکستان شاہراہ دوستی کا نام بھی دیا گیا اور اسکی تعمیر میں جاں بحق ہونے والے 200سے زائد چینیوں میں سے160کی قبریں، گلگت کے ایک مخصوص قبرستان میں محفوظ ہیں۔30جون 2006 کو حکومت چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو اور اپ گریڈ کی خاطر ایک معاہدہ طے ہوا جسکے تحت اسکی چوڑائی کو 10سے بڑھا کر30میٹر کر ناطے پایا۔ اس وقت بھی بھارت کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ البتہ 2009 میں بھارتی میڈیا نے شاہراہ قراقرم پہ کام کرنے والے چینی انجینئروں اور مزدوروں کی موجودگی کے بارے جھوٹی رپورٹیں نشر کیں کہ چینی فوج ہزاروں کی تعداد میں اس شاہراہ پہ موجود ہے۔جون 2014میں بھارت میں عام انتخابات میں نریندرمود ی کی کامیابی کے بعد مقبوضہ کشمیر ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر سے متعلق بی جے پی کے ہولناک اور سنگین منصوبے منظر عام پہ آئے۔ مودی جو انتہا اور شدت پسند بھارتی گروہ راشٹر یہ سوائم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کے سر گرم رکن اور مسلم کش ایجنڈا ” ہندتوائ“ کے پیروکار ہیں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا کہ وہ پورے کشمیر کو بھارت میں ضم کر کے دم لیں گے۔ اپنی گھناﺅنی سازش پہ عملدر آمد کی خاطر انہوں نے کاروائی کا آغاز کر دیا۔ اس سازش کی تکمیل کیلئے پاکستان کو کمزور کرنا لازمی تھا تاکہ وہ احتجاجی کاروایاں کرنے کے بھی قابل نہ رہے۔ اسی لئے بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شورش بپا کر نے کی کوشش کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں عام انتخابات کر اکے بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 جسکے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے، کو منسوخ کراکے خطے کو بھارت میں ضم کر دیا جائے۔ انتخابات میں دھاندلی کی سازش مقبوضہ کشمیر کے غیور عوام نے نہ کام بنادی۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی خاطر بھارت سے ہزاروں کی تعداد میں ہندوﺅں کو بسانا شروع کردیا ۔تاکہ اگر رائے شماری کی نوبت آئے تو مقبوضہ کشمیر کے باشند ے بھارت سے الحاق کے حق میں ووٹ دیں۔ پاکستان کو کمزور کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ آزاد جموں وکشمیر کو طاقت کے زور سے حاصل کرلیا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ آزاد جموں کشمیر کے عوام کو پاکستان سے متنفرّ کر نے کی سازشوں میں اضافہ ہوگیا۔ لائن آف کنٹرول کے پار گولہ باری اور الزام پاکستان کے سر تھوپنا کہ پہل پاکستان نے کی تھی اورعذر پیش کرنا کہ بھارت تو محض جوابی کاروائی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جعلی حملے کر اکے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا اور مقبوضہ کشمیر میںشورش بپا کر کے اسے پاکستان کی جانب سے دراندازی اور دہشت گردی قرار دینا اسی سازش کا حصہ ہے۔گلگت بلتستان کی تاریخ دلچسپ ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام یہ شمال ترین علاقہ ہے۔ اسکے جنوب میں آزاد جموں کشمیر واقع ہے جبکہ مغرب میں خیبر پختوانخواہ ، شمال میں واخان راہداری جو افغانستان سے ملحقہ ہے اور مشرق / شمال مشرق میں چین کا صوبہ شنجیانگ واقع ہیں جبکہ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر واقع ہے۔ فی الوقت گلگت بلتستان کشمیر کے ساتھ ملحق ہے اور بھارت۔ پاکستان کے مابین متنازعہ علاقہ گردانا جاتا ہے وزرات گلگت بر طانیہ کے زیر انتظام تھیں لیکن1935 میں حکومت بر طانیہ نے اسے کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کو لیز پر 60برس کےلئے دے دیا۔
26اکتوبر 1947کوجب بھارتی فوج نے سنگینوں کی نوک پہ کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ کو مجبور کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں تو گلگت بلتستان کے عوام نے اس الحاق کو قبول کرنے کی بجائے آزادی کا اعلان کر دیا۔ ایک مقامی گلگتی کمانڈر کرنل مرزاحسن نے گلگت اسکاﺅ ٹس کے برطانوی کمانڈ انٹ میجر براﺅن کی مدد سے گلگت اور اسکردو پہ قبضہ کر لیا او یکم نومبر1947 سے خود کو آزاد تصور کیا۔ افسوس کہ یہ آزادی صرف 16 دن قائم رہی ۔ گلگت کے عوام نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ سے رجوع کرکے درخواست کی کہ گلگت بلتستان کو غیر مشروط طورپر وفاق پاکستان میں شامل کر لیا جائے۔ جسے بانی پاکستان اور پہلے گورنر جنرل نے قبول کر لیا اور اسی دن سے گلگت بلتستان کو وفاق پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ 1970میں گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات"کے نام سے ایک الگ انتظامی یونٹ قراردیا گیا۔ 29اگست 2009کو صدر پاکستان نے پارلیمان کی سفارش پر"گلگت بلتستان بااختیار اور خود انتظامی حکومتی آرڈر "پر دستخط کرکرکے گلگت بلتستان کو خو د مختاری کے حقوق عطا کئے یوں یہاں کے عوام اپنی حکومتی اسمبلی کا انتخاب ،اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرسکتے ہیں لیکن انہیں پاکستان کا صوبہ نہیں بنایا گیا جسکے وہ کوشاں ہیں۔ گو بھارت ابتک گلگت بلتستان سے متعلق خاموش تھا اور بین الاقوامی مبصرین کے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ علاقہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے لیکن جب افغانستان سے متعلق بھارت کی نیت میں فتور آیا اور واخان راہداری کے تحت افغانستان تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر بھارت نے گلگت بلتستان پر اپنی ملکیت کا اعلان کردیا ۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے بیان دیا کہ "بھارت کی پوزیشن واضح ہے ۔جموں وکشمیر کا مکمل علاقہ بشمول گلگت بلتستان بھارت کا اٹوٹ انگ ہیں ۔" 2015 میں بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس بی ایس ایف BSFکے افسران سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی کے قومی سلامتی امور کے مشیر اجیت دوول نے اپنے قبیح ارادے واضح کرتے ہوئے بتایا کہ "بھارت کی سرحدیں واخان راہداری کے ذریعہ افغانستان کے ساتھ 106کلومیٹر طویل ہیں اور ہمیں اسکی حفاظت کرنی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔"اس تقریر سے گلگت بلتستان سے متعلق بھارتی عزائم واضح ہو جاتے ہیں کہ آیاوہ اس خطے کو طاقت کے زور پربھارت میں شامل کرے گا یا شورش کے ذریعہ اس کے عوام کو بغاوت پر اکساکر بھارت سے الحاق پر اکسائے گا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی "رائ"کے ایجنٹ صحافی کے روپ میں گلگت بلتستان جاکر جھوٹی رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے خطے کے عوام یہ ظلم کی جھوٹی ویڈیو تیار کرتے ہیں اور اپنی میڈیا پر پیش کرتے ہیں۔پراپیگنڈا کی خاطر عوام کو پاکستان سے متنفر کرنے اور بغاوت پہ اکسانے کی خاطر مخصوص ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہیں جو زہر پھیلانے میں مشغول ہیں ۔راقم کوبھارتی ٹی وی چینلوں پہ ٹاک شو میں شرکت کا موقع ملا،جہاں بھارتی تجزیہ نگاروں کے علاوہ نام نہاد گلگت بلتستان کے باشندے بھی پیش کئے جاتے ہیں جو پاکستانی حکومت ،فوج اور آئی ایس آئی کی انکے خلاف زیادتیوں سے متعلق جھوٹے قصے سناکر لوگوں کو گمرہ کرنے کی سازش میں ملوث ہیں۔
پاکستان کی حکومت ،میڈیا ،مبصرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس گمبھیر صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے تاکہ بھارت کی گلگت بلتستان میں سازشیں ناکام بنائی جائیں۔

سلطان محمود حالی

سلطان محمود حالی

epaper

ای پیپر-دی نیشن