کیوں نہ ریفرنڈم کرالیا جائے!
ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے خلاف حکومتی صفوں اور بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے اٹھنے والی آوازیں محض موہوم خدشات ہیں، ان دیکھے اندیشوں کے پریشان کردینے والے ہیولے ہیں یا حقیقت اپنی جھلک دکھا رہی ہے بہرحال جلد یا بدیر سچائی کا سورج طلوع ہوگا اور سب روشن ہوجائیگا دوسرا اہم سوال کیا 2018ءمیں عام انتخابات موجودہ نظام کی بقاءو تسلسل کی ضمانت بنیں گے یا ٹیکنو کریٹس پر مشتمل بندوبست رائج نظام کی بساط لپیٹ دےگا ویسے جہاں تک سسٹم یا نظام کا تعلق ہے اس میں تبدیلی کی آواز پر لوگوں کے کان دھرنے کا مطلب موجودہ نظام پر عدم اطمینان اور ایک ایسے حکومتی بندوبست کی خواہش کا مظہر ہے جو انہیں من حیث القوم جہالت‘ غربت‘ بیروزگاری‘ مہنگائی اور ناانصافی سے چھٹکارہ دلاسکے انکے بیوی بچوں کو بہتر علاج معالجے اور تعلیمی میدان میں اپنی صلاحیتوں کےمطابق آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کی ضمانت بن سکے۔ اس سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام عوام کو اضطراب انگیز شب و روز کے چنگل سے نہیں چھڑا سکا ہے۔ اس کا متبادل ہنگامی طور پر تو ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہی ہے جبکہ مستقل حل صدارتی نظام ہوسکتا ہے اس سے اتفاق یا عدم اتفاق کے راستے کھلے ہیں۔
اب یہ سوال کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کیسے قائم ہو کیونکہ آئین میں تو گنجائش نہیں ہے اس سلسلے میں عدلیہ بروئے کار کرسکتی ہے ایک رٹ پٹیشن اسکی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ دوسرے اگر آئین میں ٹیکنوکریٹس حکومت کی گنجائش نہیں تو ٹیکنوکریٹس کی تو ہے جنرل ضیاالحق کی جانب سے آئین میں شامل کردی گئی ایک شق کے تحت ٹیکنوکریٹس کیلئے 20 نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ یہ شق کالعدم نہیں ہوئی بلکہ سیاسی حکومتیں ٹیکنوکریٹس کے نام پر من پسند سیاسی افراد کو پارلیمنٹ میں پہنچاتی رہی ہیں جبکہ مقصد یہ تھا کہ سیاستدان کیونکہ مختلف شعبوں کی مہارت نہیں رکھتے لہٰذا اس کمی کو ٹیکنوکریٹس کے ذریعہ پورا کرکے کارِ حکومت بہتر طور پر چلایا جائے۔ دوسری صورت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک خاص مدت کیلئے عبوری حکومت کا قیام ہے جس میں صرف ٹیکنوکریٹس ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں میں اہلیت رکھنے والے سیاستدانوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ یہ حکومت اصلاحی لیکن انقلابی اقدامات کے ذریعہ تمام محکموں اور اداروں سے نااہلی‘ غفلت شعاری‘ سست روی اور کرپشن کا خاتمہ کرے تمام شعبوں میں اصلاحات کے ذریعہ ملک کو صحیح پٹڑی پر چڑھا کر غیر جائیدادانہ اور منصفانہ عام انتخابات کا انعقاد کرے اور زمام اقتدار منتخب نمائندوں کو سونپ دے جس کے نتیجے میں پارلیمانی نہیں صدارتی نظام وجود میں آئے صدارتی نظام کو ایک تو اسلام کے نزدیک قرار دیا جاتا ہے دوسرے قائداعظم محمد علی جناں نے بھی صدارتی نظام کےلئے پسندیدگی کا اظہار کیا مگر جمہوری روئیے کے باعث اکثریت کی رائے کو قبول کرتے ہوئے پارلیمانی نظام کی مخالفت نہیں کی۔
10جولائی 1947ءکو نوزائیدہ مملکت(پاکستان) کے طرز حکومت پر لارڈ ماﺅنٹ بیٹن سے بات چیت کے دوران اپنے پیڈ پر اپنے خیالات کو تحریری شکل یوں دی۔
پاکستان کا مستقبل کا آئین‘ پارلیمانی نظام خطرناک ہوسکتا ہے جو اب تک صرف انگلینڈ میں کامیاب ہوا ہے اور کہیں نہیں‘ جبکہ صدارتی طرز حکومت (پاکستان کےلئے زیادہ موزوں ہوگا) جبکہ بھارت کے ممتاز قانون دان پالکھی والا نے اپنی کتاب "We The Nation" میں بھارت کےلئے صدارتی طرز حکومت کی حمایت کی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں ”بالغ رائے دہی آپ کو محض اپنے استحصالی جابروں کو چننے کا حق دے سکتا ہے“ وطن عزیز میں 2013ءتک جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں بڑی اکثریت میں استحصالی جابر ہی منتخب ہوئے ہیں یہی لوگ Electablیعنی جیتنے کی اہلیت رکھنے والے ہوتے ہیں اور انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے عمران خان بھی مجھے Electabl چاہیں کی خواہش کا اسیر نظر آتا ہے جبکہ ایسے افراد اس کے اردگرد نظر بھی آتے ہیں اس سے عمران خان کے ”انقلاب“ کے آئندہ خدوخال کو دیکھا جاسکتا ہے جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے وہ ان افراد کے استحصالی جبر کے خاتمہ سے ہی کامیاب ہوسکتا ہے اس لئے انتخابات کا انعقاد متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرایا جاسکتا ہے تاکہ لوگ علاقائی سیاسی اجارہ داری کی بجائے پارٹی کو اسکے پروگرام کی بنیاد پر مینڈیٹ دیں اور پارٹی سربراہ سیاسی یا غیر سیاسی ایسے افراد کو پارلیمنٹ کا رکن اور کابینہ کا حصہ بنا سکے جو واقعی کسی شعبے کو چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں وہ الیکشن جیتنے کی اہلیت یا اپنے وراثتی حلقے رکھنے کے باعث انہیں وزیر بنانے پر مجبور نہ ہو‘ اس سے معاشی و اقتصادی استحکام جلد اور بہتر انداز سے حاصل کیا جا سکتا ہے جو ملکی سلامتی کےلئے ناگزیر ہے۔ لمحہ موجود میں وطن عزیز جس طرح اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور معاندانہ پالیسیوں کی زد میں ہے اس کیلئے مستحکم سیاسی نظام ضروری ہے صدر ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیا پالیسی نے پاکستان کیلئے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے کیا عجیب و غریب سمجھا جانے والا شخص حادثاتی طور پر وائٹ ہا¶س پہنچ گیا ہے ہرگز نہیں اسکے پیچھے امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی تھی جو سمجھتا ہے امریکہ میں فیصلے وائٹ ہا¶س کرتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ امریکہ میں حکومت جنرل اور بنک کرتے ہیں۔ ٹرمپ تو ادنیٰ مہرہ ہے ہلیری جیت جاتی تو صورتحال یہی رہتی۔ بھارت کیساتھ دفاعی معاہدہ کر کے پاکستان اور چین کو جنوبی ایشیا میں محدود کرنے کی پالیسی اسی طرح امریکی جنرلوں نے بنائی ہے۔ جس طرح افغان پالیسی بقول وزیر خارجہ خواجہ آصف افغانستان میں ہزیمت زدہ امریکی جنرلوں کی تیار کردہ ہے۔ جو پاکستان پر دبا¶ ڈال کر پاک فوج کے ذریعہ افغان طالبان اور حقانی گروپ کا خاتمہ کروانا اور اس کا کریڈٹ امریکہ کے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ جمعرات کے روز کور کمانڈروں کا جو اجلاس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدارت میں ہوا اس میں درپیش خطرات کا جائزہ لیا گیا دشمنوں کے ساتھ ساتھ کچھ ننگِ وطن بھی دشمنوں کا آلہ کانر بنے ہوئے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اور حربیار کی طرح ایک سازشی کردار حسین حقانی بھی ہے اسکے چہرے سے نقاب تو پہلے ہی اتر چکا تھا مزید نشاندہی سابق سنیٹر پریسلر نے کر دی کہ وہ (حسین حقانی) پاکستان کا سفیر ہوتے ہوئے بھارت کیلئے بھی کام کرتا رہا پیسوں کا حریص یہ میر جعفر) پیسوں کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ پاک فوج کیخلاف پروپیگنڈہ اسے دشمنوں کا تفویض کردہ خاص مشق ہے میمو گیٹ سکینڈل اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ بہرحال دشمنوں کا مقابلہ فوج اور عوامی قوت سے ایک مستحکم حکومت ہی کر سکتی ہے جس کےلئے قومی یکجہتی‘ سیاسی استحکام اور معاشی مضبوطی ضروری ہے اور اس کیلئے کرپشن‘ دھاندلی‘ بدانتظامی اور عوامی استحصال کا خاتمہ ضروری ہے۔ ممتاز برطانوی جج لارڈ ہیلشم کے بقول ”کچھ معاشروں میں منتخب آمریت بھی قائم ہو جاتی ہے“۔ پاکستان اسکی زندہ مثال ہے۔
میری رائے میں صدارتی نظام‘ متناسب نمائندگی کا طرز انتخاب اور اس سے پہلے ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت جو ہر طرح کا گند صاف کر کے ملک کو صحیح پٹری پر چلا دے‘ آئین میں بے شک اس کا طریقہ نہیں ہے پوری دنیا میں جمہوری کہلوانے والے ملکوں میں اہم فیصلوں کےلئے جہاں آئین خاموش ہو عوامی ریفرنڈم کا طریقہ رائج ہے کیوں نہ پاکستان میں بھی اس حوالے سے ریفرنڈم کرا لیا جائے۔