موسمی اور سیاسی رنگ
یکم نومبرکو راقم الحروف ایک خاندانی شادی میں شرکت کے بعد راولپنڈی سے بذریعہ لاہور آرہا تھا۔ جب موٹروے پر بھیرہ سے آگے نکلے تو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سموگی بادل موٹروے پر اترے ہوئے تھے۔ میرا بیٹا ذیشان کارچلا رہا تھا اور میں اگلی نشست پر اسکے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ جب کار سموگی بادلوں میں داخل ہوتی تھی توگاڑی کے شیشے بند ہونے کے باوجود سانس رکنے لگتی تھی۔ گاڑی کافی دیر تک ان سموگی بادلوں کے گھیرے میں چلتی تھی۔ سانس کی تکلیف نے میرے وجدان پر یہ مسافرانہ شعر نازل کردیا …؎
رکی سانسوں نے تڑپائے ہوئے ہیں
مسافرسب سموگائے ہوئے ہیں
جب ہم لاہور کے قریب پہنچے تو ہرطرف سموگی راج دکھائی دینے لگا۔ 2 نومبر کے اخبارات میں حکومت پنجاب کا جاری کردہ ایک سموگی اشتہارچھپا ہوا تھا۔ اس اشتہار سے ہمارے علم میں یہ حقیقت واضح طور پر آئی کہ سموگ دراصل دھویں‘ گردوغبار اور دھند کی باہمی آمیزش کا نام ہے۔ اس اشتہار میں سموگی حملے کی وجہ بیان کرتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ ناسا محکمہ کی تحقیق بتاتی ہے کہ بھارتی پنجاب میں دھان کی فصل کے مڈھوں کو آگ کے ذریعے تلف کیا جارہا ہے جو پاکستان کی طر ف آتی ہوئی ہواؤں کے ذریعے سموگ بن کر دھند کے بادلوں کی صورت میں ہمارے وطن پر حملہ آور ہورہا ہے۔ بارش میں تاخیرکے باعث سموگ اثرات کے تحت آنکھوں میں شدید تکالیف کا خطرہ بھی ہے اور سموگ کے پھیلاؤ کی وجہ سے حدنگاہ میں خطرناک حد تک کمی آرہی ہے جبکہ سموگ جب سانس کے ذریعے انسانی بدن میں داخل ہوتا ہے تو سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کاسبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ سموگی دھواں بزرگ خواتین اور مردوں کیلئے نہایت خطرناک ہے۔ بزرگ‘ عورتوں اور مردوں کو چاہیے کہ وہ سموگی موسم میں بازاروں‘ گلیوں اور سڑکوں پر چلنے سے گریز کریں۔ بزرگ حضرت سموگائی موسم میں سموگی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جبکہ بزرگ متاثرہ خواتین کو سموگن کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ لاہور میں سموگ اتنا پھیلا ہوا ہے کہ یہ شعر پوری صورتحال کی تصویرکشی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے …؎
سموگائے ہوئے ہیں سب کے تن من
سموگی ہے کوئی تو ہے سموگن
یہ تمام حالات دیکھ کر ہم نے سموگ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے کچھ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ پاکستان کی سڑکوں پر ہر روز جو لاکھوں گاڑیاں اور موٹرسائیکل دندناتے بھاگ رہے ہیں ان سب کا دھواں سموگ کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ خاص طور پر وہ گاڑیاں اور موٹرسائیکل جو کسی نہ کسی فنی خرابی یا پرانے پن کے سبب سڑکوں پر دھواں دھارطریقے سے بھاگ رہے ہوتے ہیں‘ سموگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان ہی دھواں باز گاڑیوں کی وجہ سے اس سال بھی صوبائی دارالحکومت پر سموگ پوری دھماکہ خیزی سے حملہ آور ہوچکا ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران پانچ ہزار دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے چالان ہو چکے ہیں‘ لیکن اسکے باوجود دھواں دھار گاڑیاں سڑکوں پر بھاگی پھررہی ہیں جبکہ انکے مالکان سموگائی مجرم بن رہے ہیں‘ لیکن لاپروائی کا مظاہرہ کئے جارہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہرسال سموگی آلودگی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور شہری آنکھ‘ ناک اور گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ٹریفک پولیس افسران کا کہنا ہے کہ محکمہ ماحولیات‘ ٹریفک پولیس اور متعلقہ محکمہ جات کو سموگ پیدا کرنیوالے عوامل کے مکمل خاتمے کیلئے سخت حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس جناب سید منصورعلی شاہ کے روبرو دو رکنی بنچ کے سامنے پولی تھین سے بنے شاپنگ بیگز کی تیاری اور فروخت کیخلاف ایک انٹرا کورٹ اپیل بھی زیرسماعت ہے۔ اس کیس میں معزز جج صاحبان نے ان شاپنگ بیگز کے مضرصحت ہونے سے متعلق جدید تحقیقی تفصیلات طلب کرلی ہے … ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘۔ سموگی پھیلاؤ کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ لوگ کوڑاکرکٹ اکٹھا کرکے اسے سرکاری کوڑے دان تک لے جانے کے بجائے گھرکے باہر رکھ کر آگ لگا دیتے ہیں ۔ کوڑا کرکٹ کو لگی ہوئی آگ بھی سموگی پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے کیونکہ اس کوڑے میں پلاسٹک اور پولی تھین کے لفافہ جات ہوتے ہیں جو آگ لگنے پر اردگرد کی فضا کو سموگا دیتے ہیں۔ اس ساری خطرناک صورتحال سے بچاؤ کی تدابیر سے عوامی آگاہی کیلئے صوبائی وزیر ماحولیات ذکیہ شاہنواز کے زیرصدارت قذافی سٹیڈیم میں ایک اجلاس بھی ہوا ہے جس میں متعلقہ محکمہ جات کے افسروں نے شہر میں پھیلنے والے سموگ پر قابو پانے کیلئے ضروری اقدامات سے انہیں آگاہ کیا اور شہریوں کو ماسک پہن کر باہر نکلنے کی آگاہی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ سب کچھ جان کر اچانک ہمیں خیال آیا کہ پاکستان کی سیاسی دنیا میں بھی سموگ پھیلا ہوا ہے اور پوری سیاست سموگی ہوچکی ہے۔ وہ نوازشریف کے دوست ہوں‘ عمران خان کے ساتھی ہوں‘ فضل الرحمن کے ہم قدم ہوں یا پھر طاہرالقادری کے مرید ہوں‘ سب کے سب سیاسی سموگ پھیلا کر پاکستانی عوام کو سیاسی سموگی بنارہے ہیں اور پورے ملک میں یہ روگ پھیلا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے وجدان پر کیا خوبصورت شعر اترا ہے …؎
سیاست داں ہیں اب توسارے روگی
سیاست ہورہی ہے سب سموگی