افغانستان میں بھارتی کردار محدود ہے امریکہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرادی
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کا کردار محدود کرے۔ پاکستان کی کوششوں کی بدولت امریکہ اور یورپ بے شمار ممکنہ دہشت گرد حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ پیر کی صبح پاکستان امریکہ ٹریک ٹو مذاکرات کے چوتھے دور کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ موثر بارڈر مینجمنٹ کیلئے افغانستان کے ساتھ سرحدی انتظام بہتر بنانے کیلئے خفیہ معلومات کا تبادلہ ناگزیر ہے۔ امریکہ بروقت معلومات کا تبادلہ کرے، پاکستان خودکارروائی کرے گا۔ پاکستان آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالہ سے انہوں نے کہ امریکہ کے ساتھ طویل المدت تعلقات رہے، ٹرمپ کی پالیسی پر اختلاف رائے ہے، امریکہ کی طرف سے پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ خطے میں صورتحال پیچیدہ ہے۔ افغانستان حکومت انتشار کا شکار ہے، افغانستان میں منشیات کی پیداوار اور لاقانونیت عروج پر ہے، امریکی الزامات مسترد کرتے ہیں۔ افغانستان میں حالات کی خرابی کا الزام پاکستان کو نہیں دیا جاسکتا، ہم افغانستان میں افغانوں کے لئے ان کا اپنا امن چاہتے ہیں۔ امن عمل کیلئے زیادہ کام خود افغانستان کو کرنا ہو گا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ پاک امریکہ تناؤ کی کیفیت اچھی نہیں، تعلقات میں بہتری کیلئے باہمی کوششیں کی جائیں‘ دہشتگردی کیخلاف ملکی دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا دہشتگردوں کیخلاف کارروائی اپنے مفاد کیلئے کر رہے ہیں، پاکستان اور امریکہ نے ملکر سوویت یونین کو خطہ سے نکالا۔ افغانستان میں بھارتی کردار کیخلاف ہیں، کیونکہ بھارت خطے میں امن کا ضامن نہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان کی لازوال قربانیوں کا ادراک اہم ہے۔ بعدازں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا امریکہ کیساتھ مکمل اعتماد بحال نہیں مگر خواہش ہے کہ بحال ہو، پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، افغانستان میں محفوظ ٹھکانے ہمارے لئے مسئلہ ہیں۔ کابل کے مسائل کا الزام اسلام آباد پر نہ لگایا جائے، افغانستان میں وسیع بھارتی کردار پر تشویش ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد کچھ نکات پر پیشرفت ہوئی، رابطوں سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش جاری ہے۔ افغانستان کی ساری معیشت منشیات پر ہے اور بہت سے پریشر گروپ شامل ہوگئے ہیں جو چاہتے ہیں تنازعہ جاری رہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کی لازوال قربانیوں کو تسلیم کیا جائے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں آبی، مہاجرین کے مسائل، افغانستان، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے نمٹنا ہے تاہم امریکہ کی مشروط پالیسی سے افغان مفاہمتی عمل کو دھچکا لگا، ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہو۔ افغان امن ہماری اولین ترجیح ہے کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کیلئے ضروری ہے، افغانستان میں امن ہماری خواہش ہے لیکن الزام تراشی کی بجائے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان دہشت گردی کے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے، خواجہ آصف نے واضح کیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی منظم وجود نہیں۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) پاکستان میں متعین امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغان طالبان پر اس وقت تک دباؤ جاری رکھے گا جب تک کہ طالبان افغان حکومت سے مذاکرات، تشدد کے خاتمے پر راضی نہ ہو جائیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے حالیہ دورہ اسلام آباد کے موقع پر پاکستان کی سیاسی و عسکری دونوں طرح کی قیادت پر واضح کر دیا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات نازک دوراہے پر ہیں اگر پاکستان کی قیادت تعاون کے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتی تو پھر ہم صورتحال کے مطابق اقدامات کریں گے۔ ہم افغانوں کو امن و مفاہمت کے راستے پرڈالنے کے لئے دلچسپی رکھنے والے ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کے منتظر ہیں کہ وہ امن کے عمل کے لئے حالات تیار کرے اور اس بات کا اظہار کرے کہ وہ مذاکرات کے خواہشمند ہے۔ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے سیاسی حل ہی اصل مقصد ہے۔ وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے حالیہ دورہ افغانستان میں صدر ٹرمپ کا یہ پیغام دہرایا ہے کہ ’’ہماری طرف سے حمایت، بلینک چیک‘‘ نہیں ہے۔ ڈیوڈ ہیل نے پیر کے روز پاک امریکہ ’’ٹریک ٹو‘‘ مذاکرات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین سے کام کرنے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز اور فیصلہ کن کارروائی کرے۔ پاکستان نے دہشت گردی سے بہت زیادہ نقصانات برداشت کئے ہیں، بہت سے سپاہی اور سویلین جوانوں کی قربانیاں دی ہیں اور ایسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی ہے جو پاکستان کے خلاف کام کر رہے تھے۔ جنوبی ایشیا میں داعش اور القاعدہ کو شکست دینے کے لئے پاکستان صف اول میں کھڑا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسی طرح کی کارروائیاں ان تمام گروپوں کے خلاف کی جائیں جو خطے کے استحکام کے لئے خطرہ ہیں، ان میں حقانی گروپ بھی شامل ہے۔ امریکی سفیر نے کہا کہ ہم بھارت کو نمایاں عالمی طاقت اور انڈو پیسیفک ریجن میں سٹرٹیجک شراکت دار سمجھتے ہیں، اسی تناظر میں یہ حکمت عملی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کروائی جائے اور دیرپا و جامع طریقے سے استحکام کے قیام اور تعلقات میں بہتری کے لئے دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اکتوبر میں امریکی وزیرخارجہ نے افغانستان کی معاشی مدد کے لئے بھارت پر زیادہ حمایت کرنے کی حوصلہ افزائی کی اور بھارت و پاکستان دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ کشیدگی میں کمی کے لئے مذاکرات بحال کریں۔ دنیا چاہتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ سے محفوظ رکھنے کے لئے دونوں ممالک اقدامات کریں۔ امریکی سفیر نے کہا کہ یہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کی علاقائی حکمت عملی ہے جس میں خطے کے مسائل کو اجتماعی کوششوں اور جامع انداز میں دیرپا حل پر زور دیا گیا ہے‘ معاشی اور سیاسی لحاظ سے محفوظ افغانستان کے لئے علاقائی سالمیت و خودمختاری کے احترام، دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے انکار کے ذریعہ سلامتی یقینی بنانے، حکومتی استحکام کے فروغ اور باہمی اقتصادی خوشحالی ضروری ہے، یہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔