دہشت گرد باولر شعیب اختر کا سحر آج بھی قائم ہے!!!!!
کرکٹ کی تاریخ میں بہت سے فاسٹ باولرز آئے ہیں لیکن دنیائے کرکٹ کی تاریخ کے تیز ترین گیند باز ہونے کا اعزاز صرف شعیب اختر کو حاصل ہے۔ شعیب اختر نے اپنی تیز گیند بازی سے ایک عرصے تک دنیا کے بڑے بڑے بلے بازوں پر اپنی دہشت قائم رکھی۔ کامران اکمل بتا رہے تھے کہ شعیب اختر کو کھیلتے ہوئے بڑے بڑے پلیروں کی ٹانگیں کانپتی تھیں یہ مناظر میں نے وکٹوں کے پیچھے ایک نہیں کئی مرتبہ دیکھے ہیں۔ شعیب اختر تیزی سے وکٹیں حاصل کرنیکی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے عظیم گیند باز فضل محمود مرحوم کہا کرتے تھے کہ فاسٹ باولر وہ ہوتا ہے جو "رن تھرو" کرے اور شعیب اختر میں یہ صلاحیت موجود تھی انہوں نے اپنے وقت میں دنیا کی تمام بڑی ٹیسٹ ٹیموں کو ایک سو پچیس اور ایک سو پچاس کے سکور پر پویلین بھجوایا ہے۔ آسٹریلیا کی ڈریم ٹیم ہو یا بھارت،جنوبی افریقہ،انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ شعیب اختر سب کو محدود سکور پر آوٹ کر کے اپنی برتری ثابت کی۔ آسٹریلیا کے خلاف کھیلی جانیوالی ان ڈور سیریز ہو یا بھارت کے اپنے میدانوں پر انکے مہان بلے بازوں کو بغیر کھاتہ کھولے میدان بدر کرنیکے واقعات شعیب اختر کی تیز باولنگ کے یادگار واقعات آج بھی شائقین کرکٹ کے دلوں پر نقش ہیں۔ شعیب اختر فاسٹ باولنگ کی تاریخ کا ایسا کردار ہین جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا انہوں نے وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے عظیم فاسٹ باولرز کی موجودگی میں قومی ٹیم میں ناصرف جگہ بلکہ اپنی الگ اور منفرد شناخت بنانے میں بھی کامیاب رہے۔ ان عظیم باولرز کے ہوتے ہوئے ٹیم میں آنا مستقل جگہ بنانا کسی بھی عام کرکٹر کے بس کی بات نہیں یہ صرف شعیب اختر ہی کر سکتے تھے اور انہوں نے کر دکھایا۔ انہوں نے ساری کرکٹ بہت جوش و جذبے اور لگن کے ساتھ کھیلی،ہمیشہ وطن کیساتھ محبت کے جذبے سے سرشار رہتے ہوئے کرپشن کے مواقع ہونے کے باوجود صاف شفاف کیرئیر انکی قدر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ دوہزار تین میں جب ہم نے فیملی میگزین کے لیے انکا انٹرویو کیا تو اس وقت شعیب کی خواہش بھی انوکھی تھی کہنے لگے خواہش ہے کہ پاکستان ٹیم فائنل میں پہنچے اور فائنل میں دس وکٹیں حاصل کر کے مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کروں۔ امام صحافت مجید نظامی مرحوم کو بھی فاسٹ باولرز بہت پسند تھے وہ فضل محمود اور خان محمد کے بارے میں خاصا جانتے تھے ایک مرتبہ ڈاکٹر نسیم اشرف کے دور میں شعیب اختر کی سلیکشن کا کوئی مسئلہ ہوا۔ قومی ٹیم نے جنوبی افریقہ جانا تھا بورڈ چئیرمین کے ساتھ مسائل کی وجہ سے شعیب سلیکشن کے لیے پسندیدہ نہیں تھے اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں۔ جناب مجید نظامی ہمیں طلب کیا اور پوچھا" بھئی یہ لڑکا میرٹ پر پورا اترتا ہے" جواب تھا جی سر بالکل پورا اترتا ہے۔ فرمانے لگے پھر اسے سب سے پہلے ٹیم میں ہونا چاہیے اور بورڈ چئیرمین سے پہلے وہاں پہنچنا چاہیے۔ پھر فاسٹ باولرز کے عمومی رویے کے حوالے سے جناب مجید نظامی کہنے لگے کہ یہ فاسٹ باولر دہشت گرد ہوتے ہیں ان سے کام لینے کا طریقہ آنا چاہیے۔ پاکستان کے شروع کے فاسٹ باولرز بھی ایسے ہی مشکل ہوا کرتے تھے اس لیے تیز گیند بازوں سے کام لینے کے لیے انکے ساتھ معاملات کو سلجھانے کا فن ہونا بہت ضروری ہے۔
جاندار باولنگ اور کرشماتی شخصیت کی وجہ سے شعیب اختر کا سحر آج بھی قائم ہے۔کئی برس ہوئے شعیب اختر کھیل کے میدانوں سے دور ہیں لیکن شائقین کرکٹ کی ان سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی اتوار کے روز جب وہ رینالہ خورد میں مچلز کے کرکٹ گراونڈ پر کھیلے جانیوالے کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل کے موقع پر گراونڈ پہنچے تو شائقین نے والہانہ انداز میں اپنے ہیرو کا استقبال کیا۔ پرستار شعیب اختر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب نظر آئے، شائقین کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے شعیب اختر کا پارکنگ سے گراونڈ تک آنا مشکل ہو گیا۔ شعیب اختر کی میدان میں آمد اور رخصتی پر شائقین کرکٹ کے جذبات دنیائے کرکٹ کے تیز ترین گیند باز سے نہ ختم ہونے والی محبت کا ثبوت ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پرستاروں کے ساتھ ملتے اور تصاویر بنواتے ہوئے شعیب اختر کے چہرے صرف مسکراہٹ تھی انہوں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر بچے بڑے بوڑھے جوان اور خواتین سب نے دل کھول کر اپنے پسندیدہ کرکٹ ہیرو کے ساتھ گذرنے والے ان لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا۔دعا ہے کہ شعیب اختر آنے والے دنوں اپنا تجربہ نوجوانوں کو منتقل کریں اور زندگی میں مزید کامیابیاں حاصل کریں۔