پاکستان اور امریکہ غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے روابطہ بڑھانے پر متفق
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پاکستان اور امریکہ کے درمیان ٹریک ٹو مذاکرات کا چوتھا دور گزشتہ روز یہاں ختم ہو گیا۔ اس دور میں اتفاق پایا گیا کہ بدگمانی ا ور غلط فہمیوں کے ازالہ کیلئے دونوں ملکوں کو روابط بڑھانے ہوں گے۔ بات چیت کا تسلسل قائم رکھنا پڑے گا۔ افغان خانہ جنگی کے خاتمہ کیلئے وہاں امن اور مفاہمت کی ضرورت مشترکہ طور پر محسوس کی گئی۔ امریکی دانشوروں نے پاکستان سے امریکہ کے مطالبات کا اعادہ کیا جب کہ پاکستانی مذاکرات کاروں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واضح کیا کہ امریکہ کی غلط حکمت عملی، افغانستان کے مسائل کی مرکزی وجہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کے ممکنہ وسیع تر کردار کی بھی پاکستان کے وفد نے کھل کر مخالفت کی اور اسے خطہ کے امن کے منافی قرار دیا۔ ٹریک ٹو میں امریکہ کی طرف سے امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اور بعض موجودہ حکام، یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کے محققین، جنوبی ایشیائی اور افغان امور کے ماہرین، جبکہ پاکستان کی طرف سے سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی، سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر، سابق کور کمانڈر ملتان جنرل ریٹائرڈ اشفاق ندیم احمد، سابق سیکرٹری خارجہ سفیر جلیل عباس جیلانی، قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کے چیئرمین مخدوم خسرو بختیار سمیت کئی سابق سفارتکار شریک ہوئے۔ ٹریک ٹو مذاکرات کے شرکاء میں اس پر اتفاق پایا گیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان کے لئے قرضوں کے بوجھ پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ اس لئے اس حوالے سے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ ریجنل پیس انسٹیٹیوٹ کے رئوف حسن اور ولسن سنٹر کے مسٹر مائیکل نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ دو روزہ مذاکرات کے دوران طرفین کے درمیان امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی کے حوالے سے تفصیل سے بات ہوئی، پاکستان نے امریکی پالیسی میں بھارت کے افغانستان میں کردار پر سخت اعتراض اٹھائے جب کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے بھرپور طور پر کردار ادا نہیں کر رہا۔ پاکستان میں بنیاد پرستی ختم کرنے کی ضرورت ہے، نیشنل ایکشن پلان پر درست طریقے سے عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ امریکہ نے پاک بھارت مزاکرات کی بحالی کے لئے کردار ادا کرنے سے انکار نہیں کیا تاہم وہ اس معاملہ پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بھارت اس وقت پاکستان سے مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ امریکہ پبلک فورم سے ہٹ کر دوطرفہ طریقے سے کردار ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی وفد کو شمالی وزیرستان کا دورہ کروایا جائے گا۔ بات چیت میں کہا گیا کہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر کروانے کے حوالے سے بھی کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ امریکہ بھارت تعلقات پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، دو ریاستوں کے درمیان تعلقات کسی تیسرے ملک سے تعلقات کے حوالے سے نہیں ہوتے۔ یہ کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے راستے کھلنے چاہئیں۔ امریکہ کو پاک افغان بارڈر پر خاردار باڑ لگانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ امریکہ سی پیک کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے۔ اس پر اتفاق موجود ہے کہ چین خطہ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے تاہم یہ تشویش ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ اس صورتحال کو اپنے سٹرٹیجک فائدہ کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ مذاکرات میں سی پیک کو پاکستان اور خطے کے لئے بہتر قرار دیا گیا اور امریکی سائیڈ نے سی پیک پر کوئی منفی ردعمل نہیں دیا۔ امریکی سائیڈ کا کہنا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے جنرل جیمز میٹس کا بیان امریکی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا، یہ صرف بھارتی نکتہ نظر کو بیان کرنے کے لئے تھا۔ پاکستان کی طرف سے زور دئیے جانے کے باوجود امریکہ کھل کر یہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں ہے کہ بھارت، پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے اور نہ ہی یہ ماننے کو تیار ہے کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا پاکستان کے خلاف کوئی اتحاد موجود ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ خطے کا کوئی بھی ملک اپنی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان کو اپنی اس یقین دہانی پر عملدرآمد کرنا ہوگا کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ امریکہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان کا افغان طالبان پر اب اثر و رسوخ اتنا نہیں رہا کہ وہ انہیں مجبور کرسکے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کالعدم لشکر طیبہ، جماعۃ الدعوۃ اور کالعدم جیش محمد کو بھارت کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے امریکہ مطمئن نہیں ہے۔ مذاکرات کے دوران امریکی وفد کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکہ پر زور دیا گیا کہ وہ افغانستان میں پاکستان دشمن ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار جیسے گروپوں کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ کی طرف سے اس بات پر کوئی جواب نہیں دیا جارہا کہ وہ کب تک افغانستان میں قیام کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت اس سطح پر نہیں ہورہی جس پر پہلے ہورہی تھی، اسی طرح سے اوباما انتظامیہ نے پاکستان کو جو سٹرٹیجک شراکت دار کی حیثیت دے رکھی تھی عملی طور پر وہ اب موجود نہیں ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان بہت زیادہ حد تک بڑھ چکا ہے۔ امریکہ پاکستان کے وزیرخارجہ کی اس بات کو درست سمجھتا ہے کہ پاکستان کو ابھی اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے۔