وزیر داخلہ احسن اقبال اور ’’RULE OF LAW‘‘
ہمارے ایک جاننے والے بزرگ ہیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا ہے۔ جو اپنے والد سے اکثر ناراض ہی رہتا ہے ان کی دیکھ بھال تو دور کی بات اگر وہ بیمار ہو جائیں تو دوائی تک لا کر نہیں دیتا۔ بیٹے نے شادی بھی اپنی مرضی سے کی ہوئی ہے، بہت نافرمان ہے، اس کے والد صاحب اکثر کوئی بات کر رہے ہوں تو انہیں ڈانٹ کر کہہ دے گا کہ آپ چپ رہا کریں آپ کو بات بھی کرنا نہیں آتی۔ جب میں اسے کہوں کہ تم اپنے باپ سے ایسا کیوں کرتے ہو تو فوراً کہے گا شاہ صاحب میں اپنے باپ کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ اس کی یہ احترام والی بات سن کر ہمیں حکومتی پارٹی کا خیال آتا ہے جو ججز صاحبان کے بارے جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ احسن اقبال چونکہ پہلے پروفیسر تھے، بول چال میں ماہر ہیں لہٰذا Rule of law کہتے بہت اچھے لگتے تھے کہ Rule of law ہونا چائیے۔مگر عملی طور پر احسن اقبال بھی ’’جیالے‘‘ ہی ثابت ہوئے۔اسلام آباد میں جب نیب کے مقدمہ کی سماعت ہو رہی تھی۔ تو موصوف بھی وہاں گئے تو ڈیوٹی پر موجود رینجرز نے انہیں اندر جانے سے روک دیا تو موصوف برہم ہوئے فرمایا کہ پاکستان کوئی بنانا ری پبلک نہیں ہے جہاں ریاست کے اندر ریاست کی اجازت دی جا سکے۔ تو جناب سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا بھی ریاست کے اداروں کی نفی ہے۔ 12 اکتوبر جب ن لیگ کے ارکان نے عدالت میں ہنگامہ کھڑا کیا۔ ایک ’’جیالے‘‘ نے پولیس افسر کو تھپڑ بھی رسید کردئیے۔مقصد فرد جرم سے بچنا تھا آخر کب تک؟ وزیرداخلہ صاحب Rule of law کے علمبردار ہیں۔ تھپڑ مارنے والے ’’جیالے‘‘ کے خلاف کب F.I.R کٹواتے ہیں۔ حکومت کے اندر کوئی تو شرپسند ہیں، جو کبھی ڈان لیکس، کبھی آئی بی کی رپورٹ اور کبھی ختم نبوت کی شق کو چھیڑتے ہیں۔ ڈان لیکس قومی سلامتی کا مسئلہ تھا۔ قربانی کے کئی بکرے بنائے گئے اصل مجرم کو آج تک بے نقاب نہیں کیا گیا؟ یہ ہے Rule of law؟ پالیمنٹرین کے بارے اگر آئی، بی کی رپورٹ جعلی تھی تو رپورٹ سامنے لانے والے اور تیار کرنے والے کو ابھی تک بے نقاب کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ بھی حکومتی کارنامہ ہی ہوگا۔ بلاشبہ یہ ملک کلمے کی بنیاد پر حاصل ہوا، ہر مسلمان کا ایمان کامل ہے کہ حضورؐ خاتم النبین ہیں۔ مسلمان کا ایمان کامل اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتاجب تک وہ آپؐ کو آخری نبی تسلیم نہ کرے۔اس شق کو چھیڑنا یا ختم کرنے کا مقصد پاکستان کی بنیادوں کو ہلانا اور پاکستانی نہیں بلکہ دُنیا کے مسلمانوں کو اذیت پہنچانا تھا۔یہ کام کس ’’شرپسند‘‘ نے کیا۔ احسن اقبال صاحب وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ڈان لیکس، آئی، بی رپورٹ اور ختم نبوت کی شق کو چھیڑنے والے کو فوراً بے نقاب کریں ورنہ یہ سب کچھ حکومت کے کھاتے میں جائے گا، ادارے جب ایک دوسرے کااحترام کریں تو ملک ترقی کرتے ہیں۔ 6ستمبر کو جنرل باجوہ نے کہا کہ اب ہم Do more نہیں کریں گے۔ اب دنیا کو کرنا ہوگا ہم بہت کرچکے یہ بالکل درست تھا مگر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بیرونی دورے پر کہا کہ میں Do more کے مطالبے سے متفق ہوں۔ جنرل باجوہ نے کہا ’’قرضے آسمان پر ہیں سیکورٹی مضبوط کر دی معیشت کی طرف توجہ دی جائے‘‘۔ مگر احسن اقبال جنرل باجوہ کے اس بیان سے بھڑک اٹھے، فرمایا ڈی جی آئی ایس پی آر معیشت پر تبصروں سے گریز کریں۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں۔ کیا کہنے شب و روز ٹی، وی اینکرز اور ٹاک شوز میں تجزیہ نگار آپ کی معیشت کا حقیقی چہرہ دکھاتے ہیں۔ ان پر آپ پابندی نہیں لگا سکتے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ 70 سال میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے۔ جو موصوف کی حکومت نے ان چار سالوں میں لیے ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف پاکستان محب وطن شہری ہیں۔ ان کی طرف سے آپ کو آئینہ دکھایا گیا آپ برُا مان گئے اور کرپشن میں جو آپ نے نیک نامیاں کمائی ہیں اس سے پاکستان کی’’ساکھ‘‘ میں اضافہ ہوا ہے۔ چار سال میں آپ کی حکومت نے عوام کے لیے کیا کیا ہے۔ یہ جو آپ دہشت گردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتے ہیں یہ بھی پاک فوج کا ہی کارنامہ ہے۔ یہ قائداعظم کا پاکستان ہے کسی بھی سیاسی پارٹی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔ بددیانت، کرپٹ لوگوں نے آج تک اس کو لوٹا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ فیصلے عوام کو کرنے دیں۔ تو ٹھیک ہے عدالتیں بند کر دیں ۔ پولیس کو فارغ کر دیں۔ وہ لوگ بے شک عدالتوں کا احترام نہ کریں مگر ان کے فیصلوں کو ضرور تسلیم کرتے ہیں۔ اقتدار کا ملنا انعام نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہے۔ احسن اقبال صاحب یقین کریں آپ Rule of law کہتے ہوئے بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ اب وقت ہے اس پر عمل کرکے بھی دکھا دیجئے۔