لندن یاترا: کچھ حسین یادیں اور کچھ درد بھری باتیں
لندن جانے کا اتفاق اس سال دوسری بار ہوا، پہلی بار برطانیہ الیکشن کی کوریج کے لیے گئی تھی۔ اس وقت دنیا کی بڑی جمہوریت کو کور کرنے اور سمجھنے کا بڑا تجسس تھا۔ الیکشن کے دن کے منظر نامے سے خوشگوار حیرت ہوئی۔ برطانیہ الیکشن کے دن عام تعطیل نہیں تھی۔ روز مرہ کے معمولات میں زیادہ تبدیلی نہیں تھی۔ پھر پولنگ اسٹیشن اور پارٹی دفتر جانے کے لیے ایکسائٹڈ تھی کہ آخر برطانیہ میں ووٹر ووٹ کس طریقے سے کاسٹ کرتے ہیں۔ وہاں پر موجود محسن اور گائیڈ مشتاق لاشاری صاحب سے ملاقات ہوئی، جو خود لیبر پارٹی کے سپورٹر ہیں۔ ان کے توسط سے میں نے الیکشن کا طریقہ کار دیکھا تو میری حیرانی کی انتہا تھی کہ برطانیہ کا ووٹ ڈالنے کا سسٹم وہی تھا جو پاکستان کا ہے۔ مگر وہاں نہ کوئی ہنگامہ تھا نہ کوئی دھاندلی کا الزام۔ الیکشن پرامن اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہورہے تھے۔ لندن کے میئر صادق خان کو الیکشن کمپین کرتے اورکارکنوں کا جوش بڑھاتے دیکھا جو کہ ہمارے یہاں دھاندلی کرنے کے مترادف ہے۔ خیر ووٹر سے لے کر سپورٹر اور انتظامیہ سے لے کر ایم ایز تک تمام لوگ ایک سسٹم کو فالو کرتے نظر آئے اور ہر ایک کا اپنا دائرہ کار اور اختیار تھا۔
دوسری بار لندن جانے کا موقع ’’پاکستان میڈیا کلب‘‘ اور ’’تھرڈ ورلڈ سولیڈیریٹی‘‘ کے زیر اہتمام ’’رول آف میڈیا ان ڈیموکریسی‘‘ کے عنوان پر منعقد کانفرنس میں ملا۔ پاکستان سے سینئر صحافی عطاء الرحمن، مجاہد بریلوی اور کراچی پریس کلب کے صدر سراج احمد صاحب اس کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن پہنچے۔ کانفرنس میں پاکستان میں جمہوریت کو لاحق خطرات کے بارے میں کھل کر بات چیت ہوئی اور موجودہ حالات میں جمہوریت کی بقا کے لیے میڈیا کے کردار کو اہم قرار دیا گیا۔ اس کانفرنس کے علاوہ بی بی سی وزٹ اور وہاں ڈنر کا موقع ملا۔ جہاں بین الاقوامی میڈیا کے کنڈکٹ پر بھی بات چیت ہوئی۔
اسی دوران حسین حقانی کی زیر صدارت ایک کانفرنس ہورہی تھی جس میں شرکت نہ کرسکی، البتہ حسین حقانی سے ہلٹن ہوٹل میں ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات میں عطاء الرحمن صاحب بھی موجود تھے۔ حسین حقانی نے کانفرنس کے ایجنڈے سے متعلق سوال پر جواب دیا کہ وہ گروپ یا گروہ جو باغی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ انہیں حقوق دیئے جائیں، تاکہ وہ پاکستان مخالف آواز ترک کردیں۔ اس کانفرنس میں ان تمام گروہوں کی نمایندگی موجود تھی۔ کانفرنس میں قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم، صوبوں کے حقوق اور طاقت کے نچلے درجے تک تقسیم کے بارے میں بات ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں حسین حقانی صاحب سے متعلق تاثر کافی مختلف پایا جاتا ہے۔لندن میں پاکستانی صحافیوں نے کھانے پر دعوت دی جس میں فرید قریشی، اشتیاق گھمن، سید کوثرکاظمی موجود تھے۔ اس دعوت کے موقع پر پاکستانی صحافیوں کو درپیش مشکلات پر بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں مقیم صحافیوں کو شدید مشکلات کے باوجود اپنا کام ایمانداری اور محنت سے کرتے ہیں۔ ایک ملاقات ہائوس آف لارڈ میں لارڈ نذیراحمد سے ہوئی جس میں انہوں نے لندن میں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات اور ان کے مسائل پر تفصیلی گفتگو کی۔ ایم پیز ناز شاہ کی طرف سے دی گئی دعوت میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح ایک عام خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے الیکشن جیتا۔
جب ان سے ایک سیاستدان ہونے کی حیثیت سے سوال کیا گیا کہ کیا برطانیہ میں بھی سیاستدان اسی طرح کرپشن کرتے ہیں جس طرح پاکستان میں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر بھی بہت خامیاں ہیں، لیکن یہاں ایک سسٹم ہے ہر چیز ایک سسٹم کی تحت چلتی ہے۔ پاکستان میں نظام میں خامیاں ہیں جو کرپشن کی وجہ بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ عزیر بلوچ کے قریبی ساتھی حبیب جان سے بھی ملاقات ہوئی جن پر پاکستان میں کئی کیسز ہیں، مگر وہ گفتگو میں اپنا دکھ درد بیان کرتے رہے۔ریڈنگ میں پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے ایک دعوت کا اہتمام تھا، جس کی صدارت وہاں مقیم میاںسلیم نے کی جن کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے۔ یہ گفتگو پاکستان اور پاکستان کے حالات پر منحصر تھی وہاں مقیم پاکستانی برطانیہ میں رہتے ضرور ہیں، لیکن ان کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ اس موقع پر سانحہ کارساز کے شہیدوں اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کی گئی۔ پیر کے روز 15اکتوبر کو پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس نے ظہرانے کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ برطانیہ کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات ہیں اور یہاں مقیم پاکستانی پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اگر ان کو اچھے مواقع دیئے جائیں تو پاکستا ن میں سرمایہ کاری اور وہاں جانے کے لیے سب تیار ہیں۔
میں اس دوران میں سوچتی رہی کہ کاش! ہمارے ملک کے سیاسی حالات مستحکم رہیں تاکہ ہمیں پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کا دُکھ نہ دیکھنا پڑے۔ کسی بھی مجبوری کے تحت باہر رہنے والے یہ پاکستانی اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ وہ جب مختلف چینلز پر پاکستان کے حالات دیکھتے ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ ہم سے زیادہ باخبر رہتے ہیں۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو وطن واپسی کے لیے ہمیشہ بے قرار رہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہاں کے حالات انہیں اجازت نہیں دیتے۔ ہم نے خود بھی اپنا جس قسم کا تاثر دنیا میں بنارکھا ہے، اس کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی۔جون ایلیا کے بقول:
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں