قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس‘ درآمدی اشیاپر ریگولیٹری ڈیوٹی کے معاملہ پر غور
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی) ءسینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں درآمدی اشیا پر ریگولیڑی ڈیوٹی عائد کرنے کا معاملہ زیر غور لایا گیا۔ ٹائر ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے قائمہ کمیٹی کوبتا یا کہ ملک میں ٹرک کا ایک بھی ٹائر نہیں بنایا جاتا اورلگژری و بڑی گاڑیوں سمیت سالانہ36ارب روپے کے درآمدکیے جارہے ہیں۔ پہلے 15فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جس کو 20فیصدمزید بڑھایا گیا ہے۔ ملک میں ٹائر وں کی طلب کا 20فیصد مقامی صنعتوں سے پورا ہوتا ہے باقی تمام درآمد کیا جاتا ہے۔ ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے سے ٹائروں کی ا سملنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں 25لاکھ ٹائروں کی طلب ہے۔ 40فیصد ٹائرا سمگلنگ کے ذریعے آتے ہیں ۔ سی پیک اور دیگر سڑکوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹائروں کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں زیاد ہ سے زیادہ دو ماہ کا سٹاک موجود ہے۔95فیصد ٹائر ریڈیئل کے ہیں اور ملک میں ٹائر بنانے کا کارخانہ 1962میں لگایا گیا تھا۔ رکن کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ جو چیزیں پائپ لائنوں میں ہوں ان پر ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا ۔ ٹائر ضرورت کی چیز ہے۔ ادارے جس طرح ہرچیز میں ٹیکس لگا رہے ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہیے۔ جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں ملک کی صنعت کے نمائندوں کوسن کر فیصلہ کیا جائے گا۔ایف بی آر حکام نے کہا کہ ڈیوٹی لگانے سے بزنس کیسے متاثر ہوگا۔ قیمت تو صارفین کو دینا ہو گی۔قائمہ کمیٹی کو ایپٹما حکام نے بتایا کہ 1250کے وی کے درآمدی جنریٹرز پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ درآمدی گیس کے جنریٹرز پر سیل ٹیکس سمیت 41فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ایف بی آر فوری طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے والا نوٹیفیکشن واپس لیں۔ قائمہ کمیٹی نے ایسٹ مینجمنٹ کمپنیوں پر کم سے کم 8فیصد ٹیکس لگانے کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا ۔
ریگولیٹری ڈیوٹی