حدیبیہ پیپر ملز کیس۔خدشات مضمرات ،امکانات
پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سب سے زیادہ شریف خاندان کے جس پرانے کیس کا ذکر آیا وہ حدیبیہ پیپر ملز کیس تھا۔یہ کیس کل سوموار 13نومبر سے کھل رہا ہے۔اس کیس کی سماعت کیلئے جسٹس آصف سعید کھوسہ تین رکنی بینچ کی سربراہی کرینگے، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم بینچ کا حصہ ہوں گے۔یہ کیس بنیادی طور پر شریف خاندان کی نوے کی دہائی میں مبینہ منی لانڈرنگ سے متعلق ہے۔حدیبیہ پیپرز ملز نامی کمپنی شریف خاندان نے 1992ءمیں کمپنی آرڈیننس 1984 کے تحت قائم کی۔ اس کمپنی کے سات ڈائریکٹرز میاں محمد شریف، میاں شہباز شریف، عباس شریف، حمزہ شہباز شریف، حسین نواز شریف، صبیحہ عباس اور شمیم اختر ہیں۔ اس مل کو نیب ریفرنس کے مطابق نوے کی دہائی میں شریف خاندان کی بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس بات کا انکشاف تب ہوا جب 2000 ءمیں اسحاق ڈار نے دوران حراست ایک اعترافی بیان میں وعدہ معاف گواہ بن کراکاﺅنٹس سمیت دیگر تفصیلات فوجی حکومت کے سامنے رکھ دیںجس پر اُن دنوں پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی تھی۔تاہم اسحاق ڈار نے بعد ازاں مو¿قف اختیار کیا کہ ان سے بیان دباﺅ ڈال کر لیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ بیان ڈار صاحب نے خود اپنے قلم سے تحریر کیا تھا،مسلم لیگ ن کے ایک رہنما صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ ڈار سے ایک پہلے سے تحریر شدہ بیان پر دستخط کرائے گئے تھے۔
ابتدائی ریفرنس میں نواز شریف کا نام شامل نہیں تھا تاہم لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کے بعدنیب کے اگلے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول نے حتمی ریفرنس کی منظوری دی تو ملزمان میں نوازشریف کے علاوہ انکی والدہ شمیم اختر، دو بھائیوں شہبازشریف اور عباس شریف، بیٹے حسین نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور عباس شریف کی اہلیہ صبیحہ عباس کے نام شامل تھے۔
یہ کہانی اسحاق ڈار اور لندن کی قاضی فیملی گرد گھومتی ہے۔قاضی فیملی اسحاق ڈار کے قریبی عزیزوں میں تھی۔کہا جاتا ہے کہ قاضی خاندان نے برطانیہ میں اسحاق ڈار کی تعلیم اور رہائش کے اخراجات برداشت کئے۔پانامہ کیس کی سماعت کے دوران مسعود قاضی کے بیٹے کاشف قاضی نے سپریم کورٹ کو خط لکھا جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مے فیئر کے اپارٹمنٹس اسی منی لانڈرنگ کے پیسے سے خریدے گئے ہیں جو انکے خاندان کے اکاونٹس کے ذریعے ہوئی تھی۔ انکا مو¿قف ہے کہ جن اکاونٹس کے ذریعے اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کرتے تھے وہ دراصل انکی دستاویزات کی کاپیوں کے ذریعے کھولے گئے تھے جو انھوں نے اسحاق ڈار کو پاکستان میں آئی کارڈ کے حصول کیلئے فراہم کی تھیں۔ کاشف مسعود قاضی کے مطابق وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں یہ ان کا وطن ہے اس لیے وہ سپریم کورٹ کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگران کو جے آئی ٹی نے طلب کیا نہ سپریم کورٹ نے بلایا۔
میڈیا میں تواتر کیساتھ شائع ہونیوالی رپورٹس کے مطابق اسحاق ڈار کے متنازعہ اعترافی بیان میں کہا گیا ہے کہ نوے کی دہائی میں انھوں نے میاں نواز اور شہباز شریف کے کہنے پر بینک آف امریکہ میں طلعت مسعود قاضی اورسکندرہ مسعود قاضی کے نام پر دو اکاونٹس کھلوائے اور ان اکاونٹس کیلئے جہاں جہاں بھی ان دو افراد کے دستخط کی ضرورت ہوتی وہ بھی اسحاق دار خود ہی کرتے تھے۔ یہ منی لانڈرنگ صرف بینک آف امریکا نہیں بلکہ سٹی بینک ،التوفیق انوسٹمنٹ بینک،البرقا اور بھی دیگر کئی بینکوں میں اکاﺅنٹ کھلوا کر کی جاتی رہی۔پیسہ پاکستان سے قاضی خاندان کے جعلی بینک اکاونٹس میں جاتا اور پھر واپس حدیبیہ پیپر ملز کے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہو جاتا۔ کاشف قاضی کا کہنا ہے کہ میرے والد جو تقریباً 20 سال پہلے لندن سٹاک ایکسچینج میں آفیسر تھے کے ساتھ اسحاق ڈار نے دھوکہ کیا۔ ہماری فیملی کے جعلی اکاﺅنٹ کھلوائے جن میں فیملی کی مرضی شامل تھی نہ ہمیں علم تھا۔ جعل سازی کااس وقت 1992 ءمیں یہ راز کھلا جب ہمیں بینک کی طرف سے پانچ ملین پونڈ کی پہلی سٹیٹمنٹ موصول ہوئی ۔جہاں یہ سوال بھی بنتا ہے کہ کاشف مسعود قاضی کی پاکستان سے محبت اس وقت ہی کیوں جاگی جب شریف فیملی کا بری طرح سے گھیراﺅ ہوچکا ہے تاہم انکے بیان اور اسحاق ڈار کے اعترافی بیان میں حیران کن مماثلت ضرور ہے۔
سابق چیئرمین نیب فاروق اعظم خان کے مطابق 1996 سے 1998 تک حدیبیہ ملز کے شیئر ڈپوزٹ اچانک بڑھ کر چھ سو بیالیس اشاریہ آٹھ ملین روپے ہو گئے جبکہ اس سے پہلے اس مل کا کیپٹیل شیئر صرف پچانوے اشاریہ سات ملین تھا۔فاروق اعظم کا یہ بھی بیان ہے کہ اتنے بڑے کیس کو نیب نے ایک ڈیل کی وجہ سے بند کر دیا تھا۔
اس کیس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اور نواز شریف کے دست راست اسحاق ڈار نے عدالت کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں شریف خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا اور نہ صرف مذکورہ کاونٹس کھلوائے بلکہ کئی دیگر اکاﺅنٹس بھی کھلوائے جن میں ڈار کے قریبی ساتھی، نواز شریف کے ملازمین اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کے اکاﺅنٹس بھی شامل ہیں جبکہ نیشنل بینک کے صدر کا منی لانڈرنگ میں تعاون بھی رہا۔
نیب کے ریفرنس کے مطابق ان اکاﺅنٹس کو کھلوانے کا مقصد Protection of Economic
Reforms Act 1992 کے تحت کالا دھن سفید کرنا تھا۔ کالا دھن صرف 642.743 ملین روپے پر ہی نہیں رکتا۔ التوفیق نامی کمپنی نے 1998 میں لندن کی عدالت میں شریف خاندان کیخلاف مقدمہ کیا اور فیصلہ شریف خاندان کےخلاف آیا مگر شریف خاندان نے التوفیق کمپنی کو 8.700 ملین ڈالرز دیکر آﺅٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کرلی۔
دسمبر2000میں شریف برادران کے جلا وطن ہونے کے بعد ریفرنس التواءمیں ڈال دیا گیا۔2011میں مدعا علیہان نے ریفرنس نمٹانے کیلئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ اسی سال اکتوبر میں لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ نے احتساب عدالت کو مقدمے میں مزید کارروائی سے روک دیا۔ تاہم معاملے کی دوبارہ تحقیقات ہوئی اور منقسم فیصلہ آیا۔ معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا گیا جنہوں نے جواب میں اسے حتمی فیصلے کےلئے ریفری جج کے حوالے کردیا۔مئی2014ءمیں ریفری جج نے مقدمہ نمٹادیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد عملدرآمد بینچ کے روبرو 21جولائی کو نیب حکام نے پیش ہو کر آگاہ کیا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر مشاورت کر رہے ہیں مگر نیب حکام نے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔ شیخ رشید نے سپریم کورٹ میں نیب کےخلاف توہین عدالت کی درخواست کی جسے پانچ رکنی بینچ نے شریف خاندان کی پانامہ فیصلے پر نظرثانی درخواست میں سنا‘تاہم اس سے ایک روز قبل ہی 14ستمبر2017کو نیب نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائےگی اور 20ستمبر کو نیب نے سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے ریفری جج کا دوبارہ تحقیقات نہ کرانے کا فیصلہ چیلنج کیا جس پر گزشتہ روز بنچ تشکیل پاگیا۔
شریف خاندان پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے جس کیلئے اس کیس کا کھلنا کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ اس کیس میں رویوں کی بڑی اہمیت ہوگی،شہباز شریف اورحمزہ کی طرف سے عدلیہ کیساتھ جارحانہ رویہ اختیار کرنیکا امکان نہیں جبکہ مریم نواز اور میاں نواز شریف اسی عدلیہ کو للکار رہے ہیں جس سے انصاف کے بھی طلبگار ہیں۔ دیکھیں وہ اپنے تندو تلخ لب ولہجے سے حمزہ اور شہباز کو بھی لے ڈوبتے ہیںیا حمزہ و شہباز ان کو بھی بچا کے لے جاتے ہیں۔اسحاق ڈاراس کیس میں وعدہ معاف گواہ تھے،اب وہ منحرف ہوچکے ہیں اگروہ اپنے انحراف پر قائم رہتے ہیں تو انکی بریت ختم اور انکی حیثیت ملزم کی ہوجائیگی۔بادی ¿النظر میںیہ کیس مسلم لیگی قیادت کے جارحانہ رویے اور ججوں کی توہین، تذلیل اور تضحیک کے باعث شریف خاندان کے گلے پڑا ہے۔اب پورے شریف خاندان کی سیاست کا دارومدار اسی ایک کیس پر ہے۔حرف آخر یہ کہ ہم جیسے قانون سے کم واقفیت رکھنے والوں کو بھی اس کیس میں کئی سقم نظر آتے ہیں،شریف خاندان نے اس کیس کو سیاسی بنانے کے بجائے میرٹ پر لڑا تو سرخرو ہونے کی امید جاسکتی ہے۔