سموگ....راستے بند، سازش یا کچھ اور؟
اس سال وقت سے پہلے سموگ نے لاہور کو آن گھیرا۔ راہ چلتے لاہوریوں نے ماسک پہنے۔ ہسپتالوں میں بیماروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ پنجاب کے وزیر صحت عمران نذیر آگاہی مہم کے سلسلے میں خود میدان میں اترے۔ لوگوں کو ماسک اور تشہیری مواد تقسیم کرتے دیکھے گئے۔ حکومت نے ایک ہفتے کے اندر پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں کے سٹاف کے ذریعے آگاہی کے لاکھوں برقی پیغام عوام تک پہنچائے۔ خود وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے محکمہ ماحولیات کے حکام کو اپنے نشانے پر لیا۔ غرضیکہ بہت کچھ ہوتا نظر آیا۔ادھر آزاد میڈیا کے ایک حصے نے سموگ کے اسباب میں سے ایک سبب لاہور میں درختوں کے بڑے پیمانے پر کٹائی قرار دیا۔ بتایا گیا کہ ماضی قریب میں جیل روڈ کو سگنل فری بنانے کے لئے 196 درخت اورنج ٹرین کا راستہ بنانے کے لئے 620 درخت اور لاہور کینال روڈ کی کشادگی کے لئے 1300 بڑے درخت کاٹے گئے۔ پی ایچ اے نے ساڑھے بارہ ہزار کے لگ بھگ درخت کاٹے اور ان کی جگہ صرف 400 درخت لگائے گئے ۔ یہاں آکر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ایک حصے سے یقینا غلط بیانی ہوگئی ہے بلاشبہ آلودگی میں اضافے اور سموگ جیسے مسائل کا جزوی طور پر تعلق درختوں کی کٹائی سے بھی ہوتا ہے لیکن لاہور کی حد تک اگر سینکڑوں درخت کاٹے گئے ہیں تو ہزاروں لگائے بھی گئے ہیں۔ بعض بڑے درختوں کو تو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہ لگا دیا گیا اور جو نئے درخت لگائے گئے ہیں تو ان کو قد آور ہونے کے لئے یقینا کچھ عرصہ درکار ہے۔ ہاں کینال روڈ کی کشادگی کے دوران بعض دوسرے اقدامات ایسے ضرور کئے گئے جو ناقص منصوبہ بندی بلکہ عوام دشمنی اور ”ن“ لیگ کی حکومت کے خلاف کسی اندرونی سازش کو ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ لاہور کی ٹرانسپورٹ کو رواں دواں رکھنے کے لئے میٹرو بس اورنج لائن ٹرین یا نہرکو کشادہ کرنے کے فیصلے درست نہیں تھے غلط بات ہوگی۔ حقیقت یہی ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو سہولتیں سفری سہولتیں دینے کے لئے راستوں کو کشادہ کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ ایسے کاموں کے لئے پہلے سے موجود تنگ راستوں اور سڑکوں سے ملحقہ تعمیرات، دکانیں، مکانات اور عبادت گاہیں تک متاثر ہوتی ہیں چنانچہ کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کے لئے بظاہر ایسے غیر مقبول فیصلے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن عوام کے وسیع تر مفاد میں جب ان فیصلوں پر عملدرآمد کے بعد نیا منظر ابھرتا ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ نئی سفری سہولتوں کے تجربے سے گزرتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے چند افراد کو ناراضگی کے مقابلے میں ایک بھاری اکثریت خوش ہوتی ہے۔ شہباز شریف کے عوام کو بہتر سفری سہولتیں دینے کے فیصلے کے مثبت اثرات ہی ان کی یا مسلم لیگ ”ن“ کی لاہور میں مقبولیت کا باعث بنے ہیں۔ یقینا بڑے بڑے درخت کاٹے گئے ہیں لیکن کچھ عرصہ آج لگائے جانے والے درخت جب بڑے ہوکر لوگوں کو نظر آنے لگیں تو ان دنوں اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی ختم ہوجائیں گے۔ اب ایک اہم بات جس کا سب نے لاہور نہر کے دونوں اطراف کی سڑک کی کشادگی کے حوالے سے غلط فیصلوں کے حوالے سے ذکر کیا تھا اور جس کا وزیراعلیٰ اور اس پروجیکٹ کے نگران حکام کو نوٹس لینا چاہیے تاکہ اربوں روپے کے اخراجات کے ساتھ دھرم پورہ سے جلو پارک جاتی رنگ روڈ تک نہر کی سڑکوں کی کشادگی کے منصوبے کے اچھے تاثرات ن لیگ حکومت کے خلاف نفرت میں نہ بدل جائیں۔ اب غلط فیصلے کی نشاندہی بھی ضروری ہے مغل پورہ انڈر پاس سے لے کر رنگ روڈ تک کے طویل فاصلے کے دوران لال پل، نواں پل، فتح گڑھ پل، تاج باغ پل سمیت بہت سے پلوں کو نہر کے دونوں جانب کی لاکھوں کی آبادی کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا۔ برسوں پر محیط عرصے کے دوران نہر کے دونوں طرف تعلیم، صحت اور بزنس کے حوالے سے روابط انہی پلوں سے وابستہ تھے۔ اب ان تمام پلوں کو گراکر آبادیوں کے پرانے راستوں کو مدنظر رکھے بغیر نہر کے اس طویل فاصلے کو دو پلوں یا یوٹرن میں بدل دیا گیا جس سے یہ ہوا کہ سب سے بڑے پرانے پل یعنی ”نواں پل“ کے ساتھ بنائے گئے ”یوٹرن“ کا کوئی مصرف ہی نہیں۔ شہر سے تاجپورہ ہاﺅسنگ سکیم، ملحقہ غازی آباد، تاج پورہ گاﺅں اور درجنوں دوسری نجی آبادیوں کو جانے والے ان دنوں نہ جانے کہاں کہاں سے خوار ہوکر داخل ہورہے ہیں اور تین سوفٹ کی پرانی سڑک شہر سے ان آبادیوں کو جانے کے لئے بیکار ہوچکی ہے۔ یہی حال تاج باغ کے نزدیک بنائے گئے یوٹرن کا ہے۔ ٹریفک پولیس عذاب میں ہے۔ لوگ عذاب میں ہیں اور مسئلہ کا آخر یہی حل نکالنا پڑے گا کہ ان ”یوٹرنوں“ کو توڑ کر آبادیوں کو سامنے رکھ کر نئے پل بنائے جائیں۔ عوام کا احتجاج جاری ہے ۔ کیا وزیراعلیٰ اس صورت حال کا جائزہ لے سکیں گے؟