کہتے ہیں خود کو آج کل جو راہ بر یہاں
عوام الناس ہنستے جا رہے ہیں
سیاست دان پھنستے جا رہے ہیں
میاں نواز شریف کا خاندان ناجائز دولت جمع کرنے اور اسے بیرون ملک بھجوانے کے مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت جس میں شریف خاندان اور نوازشریف کے منی لانڈرنگ سے متعلق جھوٹ پر مبنی بیانات اور غلط جعلی دستاویزات کا ثبوت ملنے پر نوازشریف کو بطور وزیراعظم کرسی پر براجمان رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا ۔ آج کل میاں صاحب بطور ملزم آج کل نیب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ عدالت سے باہر آ کر میاں صاحب جج حضرات کے خلاف توہین آمیز بیان بازی کرتے ہیں۔ 8 نومبر کو عدالت کے باہر میاں نوازشریف نے بیان دیا کہ جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ فیصلہ میرے خلاف ہی آئے گا۔ جج صاحبان کی طرف سے سماعت کے دوران جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ آئندہ چل کر ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن جائیں گے۔ مجھ پر عائد کردہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ سابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ جج صاحبان کا غصہ ان کے فیصلے کے الفاظ کی صورت میں سامنے آ گیا ہے۔ گذشتہ 70 سال میں کئی سیاہ فیصلے کئے گئے۔ عدالت کا یہ فیصلہ بھی سیاہ حروف میں لکھا جائے گا۔ نوازشریف نے یہ بھی کہا کہ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے نظرثانی کی درخواست پر ایک بے بنیاد فیصلہ دیا ہے۔ پاکستان کے مقبول ترین رہنما (یعنی میرے) کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ عدالتی زبان کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ انہوں نے یہ بھی ’’فرمایا‘‘ کہ مسلم لیگ نون نے یہ فیصلہ مسترد کر دیا ہے کیونکہ میرے خلاف توہین اور تضحیک آمیز جملے استعمال کئے گئے ہیں جو کسی عدالت کے لئے باعث فخر نہیں ہو سکتے۔ یہ جملے عدالتی فیصلے میں چھپے ہوئے عناد‘ بغض، غصہ اور اشتعال کی افسوس ناک مثال ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ رہبری والوں ہی نے پاکستان بنایا اور قربانیاں دیں۔ رہبری والوں ہی نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا اور جیلیں کاٹیں۔ رہبری کرنے والے ہی پھانسی چڑھے۔ ملک بدرہوئے اور نااہل ہوئے۔ قوم جانتی ہے کہ راہ بری کرنے والوں ہی نے پاکستان بنایا تھا لہٰذا سوال راہبری کا نہیں ’’منصفی‘‘ کا ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ راہ زنوں کے ہاتھوں پر بیعت کی گئی۔ راہ زنوں سے وفاداری کے حلف اٹھائے گئے اور راہ زنی کو قانونی جواز مہیا کرنے کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کیا گیا اور راہ زنوں کو آئین سے کھیلنے کے فرمان جاری کئے گئے۔ مقدس عدالتی منصب کو بغض و عناد کے تحت سیاسی شخصیات بلکہ کسی بھی پاکستانی کی کردار کشی کے لئے استعمال کرنے کو ’’عدلیہ کی آزادی‘‘ کے لبادے میں نہیں چھپایا جا سکتا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو فاضل بنچ کے پیش کردہ شعر میں ایک لفظی تبدیلی صورت حال کی صحیح ترجمانی کرے گی۔ جو کچھ یوں ہے۔
تو اِدھر اُدھر نہ بات کر‘ یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا
مجھے راہ زنوں سے گلہ نہیں‘ تیری ’’مُنصفی‘‘ کا سوال ہے
اب ہم عدالتی فیصلے کی طرف آتے ہیں۔ عدالت کی کارروائی کے دوران نواز شریف ان کے خاندان اور ان کے وکلاء کو صفائی کا پورا موقع فراہم کیا گیا اور انہیں بار بار وقت بھی دیا گیا کہ وہ ایسی مستند دستاویزات پیش کریں جن سے ثابت ہو سکے کہ ان کے خاندان نے بیرون ملک جتنی جائیدادیں بنائی ہیں وہ حق حلال کی کمائی سے بنائی ہیں لیکن شریف خاندان اپنی سچائی ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ پندرہ ستمبرکو محفوظ کئے گئے فیصلہ کا جب اعلان ہوا تو اس پر قرار دیا گیا ہے کہ نوازشریف کبھی سچائی کے ساتھ عدالت کے سامنے نہیں آئے۔ پانامہ کیس کے نظرثانی فیصلہ میں صفحہ 23 پر جج حضرات نے لکھا ہے کہ پارلیمان کے اندر اور باہر شریف خاندان کے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات کو بھی بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی رہی جبکہ خود انہیں بھی اس جھوٹ کا بخوبی علم تھا۔ عدالتی آبزرویشن میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور کچھ لوگوں کو ہمہ وقت کے لئے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن سارے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ نوازشریف کو نااہل قرار دینے کے لئے جو شہادتیں عدالت کے ریکارڈ پر ہیں وہ ٹھوس اور غیر متنازعہ ہیں۔ نوازشریف باہمی اتفاق سے طے ہونے والے نوکری کے معاہدہ میں ایف زیڈ ای کمپنی سے تنخواہ لینے کے حقدار تھے۔ یہ مستقبل کی بات نہیں بلکہ ماضی کے اس معاہدے کی بات ہے جس کے تحت نوازشریف ساڑھے چھ سال تک تنخواہ لیتے رہے۔ یہ تنخواہ ان کے بنک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی رہی۔ ان کے اکاؤنٹ میں آنے والی تنخواہ کی رقم ان کا اثاثہ شمار ہو ہو گی‘ چاہے اسے نکالا جائے یا نہ نکالا جائے۔ نوازشریف کے وکلا اس حوالے سے ادھر ادھر کے جواز پیش کرتے رہے اور نواز شریفی رہبری کا تحفظ نہیں کر سکے اور ایسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ اسی لئے فیصلہ میں یہ شعر تحریر کیا گیا ہے۔
اِدھر اُدھرکی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں‘ تیری رہبری کا سوال ہے
جہاں تک راہبری کا سوال ہے تو پاکستانی قوم کا المیہ یہ ہے کہ اس قوم کو قائداعظم کے بعد لیاقت علی خان کی رہبری نصیب ہوئی لیکن افسر شاہی سازش کے تحت ان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کے لئے کھڑے ہوتے ہی گولی مروا کر شہید کر دیا اور پھر دو نمبر لیڈر اقتدار کے مزے لوٹنے لگے اور عوامی راہبر کہلوانے لگے اور اس طرح عوام کا معاشی بیڑہ غرق ہو گیا۔
کہتے ہیں خود کو آج کل جو راہبر یہاں
ان سب میں راہ بری کا کوئی وصف ہے کہاں