یو این کونسل کل پاکستان سمیت رکن ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظرثانی کرے گی
اسلام آباد (صباح نیوز) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جینوا میں پیر کو پاکستان سمیت رکن ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظرثانی کرے گی، اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزارت انسانی حقوق کا ایک وفد کرے گا جس کی سربراہی وزیر خارجہ خواجہ آصف کریں گے، لاپتہ افراد کا معاملہ بھی اٹھنے کا امکان ہے پاکستان نے زبردستی غائب ہونے والے کیسوں کو مجرمانہ فعل قرار دینے کو کونسل سے وعدہ کررکھا ہے پاکستان پیپلزپارٹی نے اس اہم موقع پر ریاست اور ریاستی کے ایکٹرز کی جانب سے شہریوں کے انسانی حقوق کو انتہائی خطرات لاحق ہونے خدشہ ظاہرکردیا اور کہا ہے اس وقت یہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ اس امر کا اظہار پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ہفتہ کو اپنے بیان میں کیا ہے ۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پیر کو جینوا میں اقوام متحدہ تمام رکن ممالک سے انسانی حقوق کی رپورٹوں پر سوال و جواب کرے گی اور ان سے یہ بھی پوچھے گی کہ انہوں نے جو وعدے مختلف اقدامات اٹھانے کے لئے کئے تھے ان پر کیا پیشرفت ہوئی؟ اسی سال انسانی حقوق کے قومی کمشن اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے بھی اس کانفرنس میں اپنی رپورٹیں پیش کریں گے اور اس بار جھوٹی رپورٹ دینا ماضی کی نسبت نہایت مشکل ہوگا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے ہماری بین الاقوامی تجارت خاص طور پر یورپین یونین سے تجارت کا انحصار ہماری انسانی حقوق کی صورتحال پر ہے۔ یہ سب سے بہتر ہوگا کہ نظرثانی کی اس کانفرنس سے قبل یہ واضع اعلان کر دیا جائے کہ موجودہ سال کے اختتام سے قبل اس فعل کو جرم قرار دے دیا جائے۔ یہ کہنا کہ آزادی اظہار پر ہمارا مکمل یقین ہے درست نہیں ہے کیونکہ سائبر کرائمز ایکٹ 2016ءقومی سلامتی کے نام پر مخالفت کو دبانے کے لئے غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جیسا کہ حال ہی میں بلوچستان کے ایک کیس میں کیا گیا جس سے وفاق کی سلامتی خطرے میں پڑگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی رپورٹ میں سزائے موت کا کوئی ذکر نہیں لیکن دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ دیگر جرائم کے لوگوں کو بھی پھانسی دی جا رہی ہے اور گوانتاناموبے کی طرز پر ہمارے ہاں بھی زیادہ مقدمات فوجی عدالتوں کی طرف بھیجنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس کی وضاحت کرنا مشکل ہوگا۔ تین مراحل پر مشتمل ایک فارمولا پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت پر ایک وسیع بحث و مباحثہ شروع کیا جائے، زبردستی غائب کرنے کے عمل کو مجرمانہ قرار دیا جائے اور انٹرنمنٹ سنٹر میں جو لوگ حراست میں رکھے گئے ہیں ان کی مکمل تفصیل سال کے اختتام سے قبل عوام کے سامنے رکھی جائے۔