عرس اور برسی میں کیا فرق ہے؟
داتا صاحب کی برسی گزر گئی۔ ایک خاص عقیدت میں داتا صاحب جیسے اولیا اللہ کے لئے عرس کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے کہیں بھی کسی کے لئے اس موقعے پر اتنی رونق اور عقیدت نہیں دیکھی۔ سارے لاہور شہر میں میلہ سا لگا رہتا ہے۔ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آتے ہیں۔ قافلے کی صورت میں ڈھول بجتا ہوا‘ لوگ مسلسل ناچتے ہوئے‘ ایسے موقعوں پر ناچنا بہت اچھا عمل لگتا ہے۔ لوگ اس طرح بے خود ہو کے بے قرار ہو کے ناچتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔
ہماری ثقافت ہماری رہتل ہماری زندگی میں جو چیزیں غیر مفید نہیں ہیں‘ انہیں قابل اعتراض نہیں بنانا چاہئے۔ ہر کسی کی شادی بیاہ اور ایسے موقعوں پر جو رونق لگتی ہے‘ ہر کوئی انجوائے کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خوشیاں روٹھ گئی ہیں۔
داتا صاحب کو اگلے جہانوں کی طرف جاتے ہوئے تقریباً ایک ہزار برس ہو گئے ہیں۔ آپ صرف 20 برس لاہور میں رہے۔ ہر روز ہر وقت داتا دربار میں ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ جس میں روحانیت کے اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ میں جب گورنمنٹ کالج کے نیو ہوسٹل میں تھا تو ہر روز داتا صاحب حاضری دیتا تھا۔ حاضری حضوری بن جاتی تھی۔
دربار تو صرف ایک ہی ہے اور وہ داتا دربار ہے۔ جو سرکاری دربار ہیں وہاں صرف درباری ہوتے ہیں۔ جو آدمی کہیں سے بھی لاہور آتا ہے ہے وہ داتا دربار میں ضرور آتا ہے۔
ہم بڑی مشکل سے داتا صاحب کی خدمت میں پہنچے۔ ایسا ہجوم کم کم کہیں ہوتا ہے۔ ہم نے داتا صاحب کو نہیں دیکھا۔ انہیں سنا بھی نہیں مگر ان سے ایک تعلق ہے جو ہر لمحہ مضبوط ہوتا رہتا ہے۔ ان دیکھے کا تعلق اور نامعلوم کی وابستگی زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے پیغمبر رحمت رسول کریم حضرت محمد کو بھی نہیں دیکھا۔ نہ دیکھے ہوئے کا حسن اور کشش اتنی بڑی ہے کہ وہ دیکھے ہوئے پر بھاری ہے۔ میری ایک نعتیہ نظم کی دوچار سطریں ملاحظہ ہوں۔
اساں اوہنوں نہیں ویکھیا
پَر ساڈے لہو وچ
بندیاں رہندیاں نِت اوہدیاں تصویراں
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری سے ملاقات ہوئی۔ وہ محکمہ¿ اوقاف کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور انہوں نے اپنا دفتر داتا صاحب کے احاطے میں بنایا ہوا ہے۔ وہ خود بھی ایک بہت بڑے صوفی خاندان کے فرد ہیں۔ ان کی وجہ سے زندہ قبروں کی حفاظت اور تبرکات میں اضافہ ہوا ہے۔ داتا صاحب کے عرس کے لئے سارے انتظامات ان کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔
ہمارا قافلہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے روانہ ہوا۔ شاہد رشید‘ ناہید عمران‘ سیف اللہ چودھری‘ عثمان احمد‘ حمزہ سلیم‘ منظور حسین خان‘ نعیم احمد‘ عابد حسین شاہ‘ عدنان اشرف‘ پروفیسر محمد سعید‘ شیخ عمران‘ محبوب قریشی‘ محمد عباس اور راقم محمد اجمل نیازی بڑے جذبے سے داتا صاحب کی طرف روانہ ہوئے۔
داتا صاحب کا عرس ہم ہر سال اپنے گھر میں مناتے ہیں۔ آج باقاعدہ حاضری کا خیال تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب داتا صاحب مسجد میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک تقریب داتا صاحب کی یاد سے دل کو آباد کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔
لوگ عقیدت و محبت اور جوش و خروش سے خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری‘پیر حسان حسیب الرحمن‘ مفتی محمد رمضان‘ مفتی محمد اقبال چشتی اور راقم الحروف نے خطاب کیا۔ میں نے وہاں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو جنت کی بشارت دی اور کہا وہ یہاں جب تک بیٹھے رہیں گے ولی اللہ کے مقام پر فائز رہیں گے۔ میرے بعد آخری مقرر پیر حسان نے میری اس بات کی خوب تشریح کی۔
خدا کی قسم یہ سچا واقعہ ہے۔ میں گارڈن کالج پنڈی سے گورنمنٹ کالج لاہور آنا چاہتا تھا۔ اس طرح داتا صاحب کی ہمسائیگی کی بھی آرزو تھی۔ بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ داتا دربار حاضر ہوا میں نے کچھ عرض نہ کیا۔ بس دل میں خواہش لے کے گیا تھا۔ میں جونہی باہر نکلا ایک اجنبی شخص میری طرف آیا اس نے ایک پھول میرے ہاتھ میں رکھا اور چلا گیا میرے دل میں آیا کہ میرا کام ہوجائے گا۔ دوسرے دن ہی میرا تبادلہ لاہور میں ہوگیا۔
آخر میں ایک واقعہ سنیں جو سچا واقعہ ہے مگر اب ایک لطیفہ بن چکا ہے۔ اس میں داتا صاحب کے لئے جذبوں کی فراوانی ہے اور ایک حیرانی ہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ہر شہر کا ایک ولی ہوتا ہے۔ وہی اس کا والی وارث ہوتا ہے۔ ایک آدمی لاہور سے عمرہ کرنے سعودی عرب گیا۔ اس نے اپنے دوست کو لاہور فون کیا کہ یار میں مکے میں ہوں اور تمہیں فون کررہا ہوں۔ میں یہاں کچھ بیمار شمار رہنے لگا ہوں۔ تم داتا دربار جاکے میرے لئے دعا کرو۔
٭٭٭٭٭