سیاسی جماعتیں یکجہتی دکھائیں ورنہ2018ء کا الیکشن نہیں دیکھ پائیں گے: فضل الرحمن
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین و جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جمہوری قوتیں باہمی یکجہتی کا مظاہرہ کریں ورنہ 2018ء کے انتخابات کا منظر ہم نہیں دیکھ سکیں گے اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی لوگ ایک دوسرے سے مذاکرات کریں۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر بھونڈے انداز میں مذاکرات کی بات کی جیسے ہمیں خیرات دینا چاہتا ہے، کشمیر کمیٹی ریاست سے الگ نہیں جہاں ریاست وہاں کشمیر کمیٹی کھڑی ہو گی۔ متحدہ مجلس عمل اصولی طور پر بحال ہو گئی ہے اور جو مذہبی سیاسی جماعتیں اس سے باہر ہیں ان پر بھی بات ہونی ہے کہ کس طرح ساتھ ملایا جائے 13 دسمبر کو سٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آئے گی اور اس کے بعد آئندہ کے اقدامات کیے جائیں گے حلف نامہ میں ترمیم کے حوالے سے جمیعت علماء اسلام خود مسئلہ کی فریق ہے اور جو چیزیں حذف ہو گئی تھیں وہ بحال ہو گئی ہیں اور سیون بی اور سیون سی کے حوالے سے قانون تیار ہو چکا ہے اب اسمبلی سے پاس ہونا باقی ہے اس کے ساتھ ختم نبوت کے حوالے سے جس نے ترمیم کی ہم سمجھتے ہیں کہ اس جیب کترے کا پتہ چلنا چاہیے، انہوں نے یہ بات نیشنل پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ بھارت سوچ سمجھ کر تعلقات میںکشیدگی پیدا کر رہا ہے جنوبی ایشیاء میں امریکہ اور بھارت کے مقاصد ایک ہو گئے ہیں، نئی صدی میں امریکہ دنیا کی جغرافیائی تقسیم اپنی مفاد کے تحت کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ مسلم ملک میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے افغانستان، عراق، شام، یمن کے بعد خطرات سعودی عرب پر منڈلا رہے ہیں ، پاکستان کو داخلی عدم استحکام کے ذریعے ایسی صورتحال کا شکار کیا جائے گا،سی پیک کی وجہ سے امریکہ پاکستان کی سلامتی کو سبوتاژ کررہا ہے،امریکہ نے ہمیںڈرون حملوں اور امداد بند کرنے کی دھمکیاں جبکہ بھارت کو ڈرون اور امداد دینے کا اعلان کیا، غلط پالیسی کی وجہ سے ہمارے ایٹمی پروگرام پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں عدالتوں کے فیصلوں کی وجہ سے سیاسی بحران پیدا ہوا ہے اور اس دوران ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان مخالف مہم تیز کر دی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کی ان کی اہلیہ کے ساتھ ملاقات انسانی ہمدردی کے تحت ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فاٹا، کے پی کے ساتھ انضمام پر اختلافات موجود ہیں۔ ہم اس مسئلے پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور وہ حکومت کے مثبت جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔