دھرنا جاری، چند سو افراد کو ہٹایا جاسکتا ہے، غیرقانونی مطالبات نہیں مان سکتے: طلال کی وارننگ
اسلام آباد (وقائع نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ خصوصی نامہ نگار) وفاقی حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں دھرنے شریک تحریک لبیک یارسول اللہ اور دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے دھرنا دینے والوں کے 12 مطالبات ہیں، صرف ایک مطالبہ ختم نبوتؐ کے قانون کیلئے رکھا گیا ہے اس میں مذہبی سے زیادہ سیاسی محرکات شامل ہیں، تاہم دھرنے کے شرکاء کو آخری وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے اپنا طرز عمل تبدیل نہ کیا تو قانون حرکت میں آئے گا، حکومت خلاف قانون کوئی مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔ حکومت نے وفاقی وزیر قانون کو ہٹانے کے مطالبہ کو تسلیم کرنے انکار کر دیا ہے۔ ایک کمیٹی بنائی جس نے معاملے کو دیکھا، ہمیں ضرورت نہیں کہ کسی کو اپنا ایمان دکھائیں، کمیٹی کی رپورٹ ایک ہفتے میں آنے کی امید ہے، اس سے پہلے کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، ابتدائی رپورٹ کے مطابق کوئی فرد واحداس غلطی میں دانستہ طور پر شامل نہیں تھا وفاقی حکومت پرامن مذاکرات کے ذریعے معاملے کا حل چاہتی ہے دین کے نام پر دھرنا دینے والوں نے وعدہ خلافی کی ہے اور پرامن احتجاج کی بجائے راستے بند کر دئیے ہیں، حکومت نے ابھی تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ان خیالات کا اظہار منگل کو وفاقی وزیر مذہبی امور سردار سردار محمد یوسف، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سردار محمد یوسف نے کہا کہ ختم نبوتؐ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے، ہم پہلے مسلمان اور پھر کچھ ہیں۔ غلطی کا فوری نوٹس لیا گیا اور دوبارہ اجلاس بلا کر غلطی کو درست کرکے حلف نامہ بحال کر دیا گیا ہے، یہ ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے، پاکستان میں 97فیصد مسلمان ہیں، 1973کے آئین میں ختم نبوتؐ کے حوالے سے چیزیں صاف کی گئی تھیں، اگر اس مسئلے کیلئے ہزاروں وزارتیں بھی قربان کرنا کرنی پڑیں تو خوشی سے کریں گے۔ انہوں اپیل کی کہ دھرنا ختم کر دیں۔ احتجاج کا حکومت نے نوٹس لے لیا ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ پچھلے آٹھ دنوں سے دھرنا دیا جارہا ہے، حکومت نے کوشش کی کہ مذاکرت کے ذریعے معاملہ حل ہو، میں اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے ان سے ملاقات کی اور مطالبات کو سنا، بات اس لئے آگے نہ بڑھی کیونکہ کچھ چیزیں قانون کے خلاف تھیں، ان کے 12مطالبات تھے، لاہور اورر اسلام آباد تک کسی نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، دین کے نام پر جو لوگ آئے انہوں نے وعدہ خلافی کی، یہ معاملہ ہوا تھا کہ وہ کوئی سڑک بند نہیں کریں گے۔ چند سو لوگوںکو ہٹانا مشکل نہیں تھا، سڑکیں روکنا اور مطالبات دینا غیر قانونی ہے۔ طلال چوہدری نے کہا عوام کو تکلیف پر ہم شرمندہ ہیں، تمام غیر قانونی اقداموں پر کارروائی ہوتی ہے، دھرنے والی جماعت ایک سیاسی جماعت ہے جس نے دو انتخابات میں حصہ لیا، اس کے پیچھے سیاسی مفادات بھی ہیں۔ قبل ازیں فیض آباد میں منگل کے روز بارش کے دوران وفاقی پولیس کی جانب سے تحریک لبیک یا رسول اللہ پاکستان کے زیر اہتمام دھرنے کے شرکاء کے گرد جمع ہونے پر کارکنوں نے پولیس پر پتھرائو کردیا جس سے ایس ایچ او تھانہ آئی نائن قاسم خان نیازی زخمی ہوگئے اس دوران پولیس کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ ہم کسی آپریشن کیلئے فیض آباد چوک میں ادھر ادھر نہیں ہوئے بلکہ سکیورٹی کے لحاظ سے اپنی پوزیشنیں بدلی ہیں۔ علاوہ ازیں فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے باعث شہریوں کو مشکلات کے معاملہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔ منگل کو دائر کی گئی درخواست میں سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور چیف کمشنر کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست کرنل (ر) انعام الرحمان کی طرف سے دائر کی گئی۔ دوسری طرف دھرنے میں شریک مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر پولیس ہمارے خلاف آپریشن کرے گی تو ہم بھی اپنا دفاع کریں گے۔ مظاہرے میں شریک قائدین نے شرکا کو مزاحمت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دفاع میں پولیس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اہلسنت کی 20 جماعتوں نے اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس کا اعلان 11 داتا دربار روڈ لاہور میں حقوق اہلسنت محاذ کے دفتر میں ہونے والے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسلام کی بنیاد عقیدہ ختم نبوت پر قائم ہے۔ اس عقیدے کے تحفظ کیلئے کسی قربانی سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ قادیانی بلاشبہ مرتد اور کافر ہیں اور امت محمدیہ اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے متفق اور متحد ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دھرنے میں بیٹھنے والوں کے مطالبات پورے کئے جائیں۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو پبلک کرکے زاہد حامد سمیت تمام مجرموں کو برطرف کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔