• news

نیب ریفرنسز: نوازشریف7 روز‘ مریم کو ایک ماہ کے لئے حاضری سے استثنی مل گیا

اسلام آباد (نامہ نگار) احتساب عدالت میں شریف خاندان کے باضابطہ ٹرائل کا آغاز ہوگیا۔ استغاثہ کے دوگواہان کے بیانا ت قلمبند کرنے کے بعد استغاثہ کے مزید 4گواہان کو طلب کرتے ہوئے ریفرنسز کی سماعت 22نومبر تک ملتوی کردی گئی۔ سابق وزیراعظم اور انکی صاحبزادی مریم نوازکی جانب سے نمائندے مقرر کرنے اور عدالت میںحاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کو ایک ہفتے جبکہ مریم نواز کو ایک ماہ کا استثنیٰ دے دیا گیا۔ بدھ کو سابق وزیراعظم نواز شریف، اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدرکے ہمراہ پیش ہوئے، اس دوران شریف خاندان کی جانب سے تین متفرق درخواستیں دائر کی گئیں جن میں سے ایک درخواست مریم نوازکی طرف سے عدم موجودگی میں انکے نمائندے کو پیش ہونے کی اجازت دینے کے بارے میں تھی جس میں جہانگیر جدون کو نمائندہ مقرر کرنے کی بھی استدعا کی گئی جبکہ دوسری درخواست سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر دی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ 20نومبر سے ایک ہفتے کی حاضری سے استثنیٰ دیا جائے کیونکہ اہلیہ کلثوم نواز کے علاج کے لئے لندن جانا ہے۔ نوازشریف کا درخواست میں کہنا تھاکہ ان کی غیر موجودگی میں انکے نمائندہ ظافر خان عدالت میں پیش ہوں گے جبکہ تیسری درخواست عدالت کی جانب سے ریفرنسز یکجا کرنے کے فیصلہ میں تاریخ کی درستگی کی تھی۔ یاد رہے کہ 8نومبر کو احتساب عدالت میں ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی لیکن اس فیصلہ میں سپریم کورٹ کے 28جولائی فیصلہ کی تاریخ 20جولائی لکھ دی تھی۔ عدالت نے درخواستیں وصول کرنے کے بعد شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں ٹرائل کا باضابطہ آغاز کرتے ہوئے استغاثہ کی پہلی گواہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان(ایس ایس سی پی) کی خاتون افسر سدرہ منصور کا بیان ریکارڈ کرلیا انہوں نے بیان میں کہاکہ وہ 18اگست 2017کو نیب لاہور میں تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئیں اور مانگی گئی دستاویزات تفتیشی افسر کو پیش کیں، سدرہ منصورکا کہنا تھا کہ نیب کو دی گئی دستاویزات پرانکے دستخط اور انگوٹھے کا نشان موجود ہے، دستاویزات میں کورنگ لیٹر کے ساتھ کمپنیوں کی سالانہ آڈٹ رپورٹس شامل ہیں، گواہ سدرہ منصورنے کہاکہ نیب کو حدیبیہ پیپر ملز کی 2000سے2005تک کی آڈٹ رپورٹ فراہم کی جبکہ سالانہ آڈٹ رپورٹ کی تصدیق شدہ کاپی نیب کو پیش کی، سدرہ منصور کی طرف سے ریکارڈ کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں تو پراسیکیوٹر نیب نے وکیل صفائی سے کہاکہ یہ اصل دستاویزات چیک کرلیں اس پر وکیل صفائی خواجہ حارث اور امجد پرویز نے سدرہ منصور کی فراہم کردہ دستاویزات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا کہ یہ فوٹو کاپیاں ہیں اصل نہیں، اعتراض کا جواب دیتے ہوئے پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس کے مطابق فوٹو کاپیاں ہی ضروری ہوتی ہیں، گواہ سدرہ منصور نے کہاکہ یہ کاپی کمپنیز کی جانب سے ایس ای سی پی کو فراہم کی گئیں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ ان دستاویزات پر کمپنیز کی مہر یا سیل موجود نہیں ہے، جس پر گواہ سدرہ منصور نے کہاکہ جی نہیں ہے اور یہ ضروری بھی نہیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ دستاویزات کی فراہمی کے لیے آپ کے خط کے جواب میں کمپنیز کی طرف سے جو لیٹر بھیجا گیا وہ کہاں ہے، سدرہ منصور نے کہاکہ فائلز میں چیک کر لیتی ہوں، اس دوران پراسیکیوٹر نیب نے کہاکہ ابھی دستیاب نہ ہوا توبعد میں پیش کردیں گے، جس پر خواجہ حارث نے کہاکہ یہ سارے گواہوں کو دوبارہ بلائیں گے عدالت دیکھے گی، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم سمجھ سکتے ہیں ان پر کام کا بہت دبائو ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نہیں ایسی بات نہیں میں صرف یہ کیس لڑ رہا ہوں، مجھ پر کام کا دبائو نہیں ہے، سدرہ منصورنے عدالت کو بتایا کہ 2000سے2005تک کے آڈٹ کے دوران حدیبیہ پیپر ملز میں ایک جیسی رقم موجود نہیں۔ اکائونٹ کے مطابق اکائونٹ میں 49496000کی رقم تھی جرح کے دوران سدرہ منصور نے کہاکہ 2000سے 2005تک کی دستاویزات میں نے تیار نہیں کیں۔ خواجہ حارث نے سوال کیاکہ کیا کبھی نوازشریف کے ٹیکس سے متعلق کسی نے سوال اٹھایا؟ گواہ کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں،خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اِنکم ٹیکس حکام نے نواز شریف کے ٹیکس پر اعتراض کا کوئی ریکارڈ آپ کو نہیں دیا ؟ کیا ٹیکس ریکارڈ کے حوالے سے کوئی مقدمہ بازی زیرالتوا ہے ؟ تو جہانگیر نے کہاکہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ دوسرے گواہ جہانگیر احمد پر بھی جرح مکمل ہوئی تو احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنس پر سماعت 22نومبر تک ملتوی کردی اور آئندہ سماعت پر چار گواہان طلب کرلئے جن میں ملک طیب، شہباز، مظہر بنگش اور راشد نامی شخص شامل ہیں، عدالت نے نواز شریف اور مریم نوازکی استثنیٰ کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تو نیب کی ٹیم کی جانب سے استثنیٰ کی درخواستوں کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ علاوہ ازیں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کے دونوں بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کی جائیداد قرقی اور دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا معاملہ22نو مبر تک ملتوی کر دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدر کے ریفرنسز کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی ہوئی تو حسن نواز اور حسین نواز کی جائیداد قرقی اور دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا معاملہ آیا تو عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت بھی 22نومبرکو ہی کی جائے گی، اس طرح سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کر دی گئی۔گزشتہ سماعت پر عدالت نے اثاثہ جات قرق کرنے کے احکامات جاری کر دیئے تھے عدالت نے مفرور ملزمان حسن اور حسین نواز کی جائیداد قرقی کی تفصیلات نیب کے حوالے کی تھیں۔نیب نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کے دونوں صاحبزادوں کو اشتہاری قرار دینے کیلئے تعمیلی رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرائی تھی جبکہ تفتیشی افسران نے بھی اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں نواز شریف کے تین ریفرنس یکجا کرنے کے معاملے پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل کی سماعت آج ہوگی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ان چیمبر اپیل کی سماعت کریں گے، نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے ریفرنسز یکجا نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ تین الگ الگ کرپشن ریفرنس بدنیتی پر مبنی اور غیر قانونی ہیں اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں رجسٹرار آفس نے نواز شریف کی درخواست پر اعتراضات لگا کر واپس کر دی تھی جس کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔ تین ریفرنس یکجا کرنے کے حوالے سے نواز شریف کے وکیل کا کہنا ہے کہ تین ریفرنسز میں لگائے گئے الزامات ایک جیسے ہیں یہ درست ہے کہ ریفرنسز میں ملوث اثاثے مختلف ہیں مگر تینوں ریفرنسز میں ملزم ایک ہی ہے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا مزید کہنا ہے کہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ ریفرنس میں 9 اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں 13 گواہ ہیں دونوں ریفرنسز میں 6 گواہ مشترک ہیں جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں 3 گواہ مشترک ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن