• news
  • image

کشمیر میں بھارتی مذاکرات کا رکے بعد امریکی وفد کی آمد

مقبوضہ کشمیر میں جاری خونریزی اور بھارتی مسلح افواج کی چیرہ دستیاں عروج پر ہیں۔ 2017 ہنگامہ خیز سال رہا۔ عالمی برادری میں کشمیر میں جاری مظالم کے حوالے سے کافی شور اٹھا جس سے بھارتی حکومت کچھ گھبراہٹ محسوس کر رہی ہے۔ اپنی بھرپور کوشش کے باوجود کشمیر میں تمام تر مظالم ڈھانے اور ظالمانہ حربے کے ساتھ ساتھ خطرناک ممنوعہ اسلحہ استعمال کرنے کے باوجود بھارت تحریک آزادی کو دبانے میں مکمل ناکام رہا۔ 7 لاکھ افواج بھی کشمیری مجاہدین پر کشمیری عوام پر تمام تر مظالم کے باوجود قابو نہیں پا سکے۔ مجاہدین کے جنازوں پرکھلم کھلا پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ ان کے مزاروں پر پاکستان پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری بھارت سے مکمل علیحدگی چاہتے ہیں اور وہ بھارت استبدار سے نجات چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں عالمی برادری کا کشمیر میں بھارتی مظالم پر آواز بلند کرنا ایک قدرتی عمل ہے۔ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی۔ ممنوعہ اسلحہ کے استعمال اور ذرائع ابلاغ پر ناروا پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور وہاں انسانی حقوق کے کارکنوں کا مشن بھیج کر حالات سے مکمل آگاہی چاہتے ہیں۔ مگر بھارت ھنوز ایسی کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آ رہا۔ ان حالات میں جب وہاں 2 ہزار سے زیادہ اجتماعی گمنام قبروں کی بھی نشاندہی ہو چکی ہے اور مزید کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔ عالمی برادری کا احتجاج مزید سخت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ بد ترین جنگی جرائم میں سے ایک ہے۔ پورے کشمیر میں پھیلی یہ ہزاروں گمنام اجتماعی قبروں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کی نعشیں دفنائی گئی ہیں جنہیں بھارتی افواج اور پولیس نے مار کر چپکے سے دفنا دیا۔ ان کے لواحقین ابھی تک ان کی واپسی یا ان کے بارے میں معلومات کے منتظر ہیں، جو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے گم شدہ لاپتہ افراد زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ ان حالات نے بھارتی حکومت پہ دبائو بڑھا دیا ہے اور وہ اس وقت اس سے بچ نکلنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت نے ایک اعلیٰ ریٹائرڈ خفیہ ایجنسی کے افسر کو کشمیر میں حالات سدھارنے اور وہاں کی سیاسی و غیر سیاسی قیادت سے بات چیت یعنی مذاکرات کے لئے بھیجا ہے اس کام یعنی مذاکرات کے لئے ایک خفیہ ایجنسی کے افسر کی تعیناتی سے ہی بھارتی حکومت کی بد نیتی سامنے آ جاتی ہے۔ حریت کانفرنس نے فوری طور پر اس پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے ۔ کیونکہ حریت کانفرنس کا موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات میں 3موثر عناصر کے درمیان ہی ہو کر کسی حل کی طرف لے جا سکتے ہیں یہ عناصر بھارت، کشمیری اور پاکستان ہیں ان تینوں میں سے کسی ایک کی غیرموجودگی بھی مذاکرات کو بے معنی بنا دیتی ہے۔ بھارت نے اس پر بھی دوغلی پالیسی اپنائی ہے۔ کبھی وہ کہتاہے علیحدگی پسند حریت والوں سے بھی مذاکرات ہوں گے کبھی کہتا ہے علیحدگی یا آزادی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر مذاکرات کس بات پر اور کس سے ہوں گے۔ کشمیری خود کو بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں سمجھتے نہ ہی مانتے ہیںوہ ہر صورت بھارت سے علیحدگی چاہتے ہیں۔وادی کشمیر کا چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونجتا ہے۔ انہی حالات میں ایک امریکی وفد بھی اچانک کشمیر کے دورے پر پہنچا ہوا ہے۔ جو وہاں کی سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کرتا پھر رہا ہے۔ اس کی اصل حقیقت بھی جلد سامنے آ سکتی ہے اور ایجنڈا بھی۔ مگر یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان آج کل دوستی کی پتنگ چڑھی ہوئی ہے۔ چند روز قبل امریکہ نے پاکستان اور بھارت سے مسئلہ کشمیر کے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ اب اسی دباؤ سے نکلنے کے لئے بھارت نے امریکی وفد کو کشمیر کے دورے کی اجازت دی ہے۔ جو سوائے اس کی چال کے اور کچھ نہیں ہے کیونکہ اس طرح بھارت امریکہ کی نظر میں اچھا بننا چاہتا ہے۔ ہاں اگر یہ وفد تمام کشمیری سیاسی سماجی نمائندوں‘ حریت کانفرنس اور بھارتی مظالم کے شکار شہیدوں‘ زخمیوں اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے بھی ملتا ہے‘ ان سے معلومات حاصل کرتا ہے‘ حقائق جانتا ہے تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو کشمیر میں بھارتی مظالم پر تشویش ہے اور وہ اب حقائق کو مدنظر رکھ کر اس مسئلہ کے حل کی طرف کوئی پیش قدمی کرنا چاہتا ہے۔ تو پھر بھی اسے بھارت اور کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی رابطہ کرنا ہو گا کیونکہ وہ اس مسئلے کا تیسرا فریق ہے۔ یہ مسئلہ صرف انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی فوجی مظالم کا نہیں سوا کروڑ کشمیریوں کے مستقبل کا ہے۔ وہ 70 سالوں سے بھارت سے علیحدگی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہیں بھارت اور بھارت نواز سیاسی جماعتیں عرصہ دراز سے داخلی خود مختاری کے نام پر بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں مگر کشمیری بھارت اور بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے جھانسے میں آنے والے نہیں وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ایسا کرنے کا حق خود اقوام متحدہ نے دیا ہے۔ جس میں امریکہ اور یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔ اب اگر پاکستان سفارتی محاذ پر اپنی سرگرمیاں تیز کرے اور او آئی سی کو بھی جگائے تو یہ مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی مواقع زیادہ ہیں۔ ہمارے وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ سطح کے حکام کو اس وقت کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہئے جس سے اس مسئلہ پر اثر پڑتا ہو۔ محترم خاقان عباسی کے گذشتہ دنوں کے بیان پر مقبوضہ کشمیر میں خاصی لے دے ہو رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا واضح اور دوٹوک مؤقف صرف اور صرف یہی ہونا چاہئے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق رائے دہی دیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن