کیاکراچی پھر سیاسی دہشتگردوں کے سپرد کر دیا جائے
چند سال قبل ایک برطانوی عسکری ماہر کی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ فوج اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے صرف ہتھیار ہی استعمال نہیں کرتی‘ کئی نفسیاتی حربے اختیار اور دیگر چالیں چلتی ہے۔ ایک اسلامی لشکر کے سالار نے چند گھوڑسواروں کو ایک سمت سے خوب دھول اڑانے کا حکم دیا جس سے دشمن اس غلط فہمی کا شکار ہوکر فریق مخالف کو نئی کمک مل گئی ہے حوصلہ ہار گیا۔ تعجب نہ ہونا چاہئے اگر وطن عزیز بالخصوص کراچی میں جنگی حالات سے نبرد آزما فوج اور رینجرز حکام نے امن و امان کیلئے غارت گری‘ تشدد کی سیاست اور چند ماہ بعد انتخاب کے موقع پر ’’مہاجر ووٹوں‘‘ کی کھینچاتانی کے باعث خون خرابے کی خطرناک صورتحال کے جنم لینے کے امکانات کے خاتمہ کیلئے ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے ایک بینر تلے آنے میں معاونت کی ہو۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا نیشنل ایکشن پلان‘ ضرب عضب اور ردالفساد آپریشنوں کے بعد کراچی پر ہر لمحے چھائے خوف کے بادل چھٹے ہیں۔ اس تعداد پر نظر ڈالنے سے تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ 1995ء سے 2013ء تک 30 ہزار شہری ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ بھتہ خوری کا یہ عالم ہر روز 8 سے 10 کروڑ روپے صنعتکاروں اور تاجروں سے وصول کرکے لندن بھجوایا جا رہا تھا۔ لیاری گینگ کا قتل و غارت گری کا بازار الگ‘ مقتولوں کے سروں سے فٹبال کھیلنے جیسی سفاکیت کی صورت کراچی کی تاریخ کا خوفناک سیاہ باب رقم کیا جا رہا تھا۔ علاقے میں پولیس کو داخلے کا حوصلہ نہ تھا۔ کام کاج کیلئے جانے والے مردوں کی واپسی تک گھروں میںخواتین اور بچے ہولاتے رہتے۔ بہت سے قدموں سے چل جانے والے ایمبولینسوں میں واپس آتے جنہیں مقامی قبرستانوں میں دفن کی اجازت نہ تھی بلکہ مخصوص جگہ تدفین سے ’’شہداء کا قبرستان‘‘ تیار کیا جا رہا تھا۔ زمینوں پر ناجائز قبضے‘ چائنا کٹنگ‘ پانی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے تین سے چھ ہزار تک واٹر ٹینکوں کی فروخت کا ظالمانہ سلسلہ معمول بن گیا تھا۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے ساتھ گلی محلوں میں راہزنی اور ڈکیتیوں نے زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ ستم بالائے ستم چند مستنثیات کو چھوڑ کر پولیس اہلکار وارداتیوں‘ مجرموں اور دہشت گردوں کے سہولت کار بنے ہوئے تھے۔ دہشت گرد بلاخوف ہر طرف دندناتے پھر رہے تھے۔ یہ سب اس لئے تھاکہ شہر پر وطن دشمن الطاف حسین کی پارٹی اور دیگر معاشی دہشت گردوں کی اجارہ داری کے آسیب کا سایہ تھا۔فوج اور رینجرز کے جوانوں نے جان جوکھم میں ڈال کر اس عفریت پر قابو پایا۔ اس عمل میں دوہری مشکل یہ درپیش رہی کہ سول انتظامیہ معاونت کی بجائے روڑے اٹکاتی رہی۔ اسے کیا کہئے ڈی ایس پی سطح کا پولیس آفیسر عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی پر دستخط سے تادم تحریر انکاری۔ عزیر بلوچ کو رینجرز کی تحویل ہونے کا تاثر دیکر مسلسل بچائے رکھنے کی حکمت عملی‘ اربوں کی کرپشن میں ملوث ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن سے وزیراعلیٰ کی قیادت میں پوری کابینہ کی جیل میں ملاقاتوں سے کھلی پشت پناہی کا پیغام‘ گرفتار خطرناک ملزمو ںکے چالان عدالتوں میں پیش کرنے میں استغاثہ کے تاخیری ہتھکنڈے‘ ان سب دیکھی اور ان دیکھی رکاوٹوں اور عدم تعاون کے باوجود کراچی کو دوبارہ امن کا شہر بنایا گیا۔ صنعتکاروں اور تاجروں کو بھتہ خوری سے نجات‘ دہشت گردوں اور کرپٹ افراد کی گرفتاریوں‘ ڈاکوئوں اور راہزنوں کا صفایا اور نتیجہ یہ کہ رواں سال ٹارگٹ کلنگ کے صرف دو واقعات ہوئے اور اب کیا محض اس لئے کہ کچھ مفا پرست‘ دشمنوں کے آلہ کر عناصر اور عاقبت نانداندیش اور ذاتی مفاد کی پٹی آنکھوں پر باندھے بعض اینکرز اسٹیبلشمنٹ کے نام پر بدنام کرنے کی مہم چلائیں گے۔ فوج اور رینجرز اپنے تمام کئے کرائے پر پانی پھیر کر کراچی کو دوبارہ سیاسی جرائم پیشہ عناصر کے چنگل میں دیدیں۔ اگر اوپر بیان کردہ حکمت عملی کے تحت امن و امان برقرار رکھنے کیلئے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کو ایک بینر تلے لانے کا قدم اٹھا لیاگیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔ سندھ حکومت کے ذمہ داران بتائیں کہ بحالی امن کی کارروائیوں میں فوج اور رینجرز سے کس قدر اور کس نوعیت کا تعاون کیا گیا۔ اس کے برعکس رینجرزنے بعض ملزموں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تو وزیرداخلہ کی سطح کا حکومتی عہدیدار تھانے سے زبردستی چھڑوا کر لے جاتا ہے۔ آپریشن کے باعث کراچی سے بھاگنے والوں کو بچانے کیلئے رینجرز کے اندرون سندھ داخلے پر پابندی‘ کراچی میں نوے روز کی مدت ختم ہونے پر توسیع کے سلسلے میں غیرضروری ٹال مٹول‘ ایپکس کمیٹی میں جن پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ انہیں ہی مخبری کوکس تعاون کا نام دیا جائے حتیٰ کہ حکمران جماعت کے لوگ ان زمینوں پر قبضہ کرنے میں شرم حیا محسوس نہ کریں جہاں عبدالستار ایدھی کے فلاحی مراکز قائم ہیں پھر ایسے حالات میں جب سرحدوں کو خطرات منڈلا رہے ہوں افغانستان کی سرحد اور کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ اور شیلنگ سے ہر روز فوجی آفیسرز اور جوان شہید ہورہے ہوں‘ بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا عالمی سطح پر پراپیگنڈا کیا جا رہا ہو‘ سی پیک میں رخنہ اندازی اور ملک توڑے کے ناپاک عزائم کیلئے کلبھوشن یادیو جیسے ایجنٹوں کے ذریعہ سازشی جال بچھائے جا رہے ہوں‘ فوج ان بیرونی خطرات سے نمٹنے یا اندرونی امن و امان اور خطرات کیلئے سر کھپائے۔ یہ ذمہ داری ہزار فیصد سول بندوست کی ہے۔ سندھ میں حکمران جماعت کے وزراء اور ارکان اسمبلی ٹی وی ٹاکس شو میں اپنی مجرمانہ پہلوتہی پر یوں پردہ ڈالتے ہیں۔ ہمیں افتخار چودھری نے کام نہیں کرنے دیا یا ایم کیو ایم سے مسائل پیدا کئے رکھے۔ حالانکہ اسے بار بار پہلو میں بھی بٹھاتے رہے مگر اس پورے عرصہ میں لوٹ مار، زمینوں پر قبضے، ناجائز بھرتیوں وغیرہ میں نہ افتخار چودھری رکاوٹ بنا نہ ایم کیو ایم سر راہ ہوئی۔
جہاں تک ایم کیو ایم اور پی ایس پی یا دیگر گروپوں کا تعلق ہے یہ بلا شبہ شہری سندھ کے ڈیڑھ کروڑ کے نمائندہ ہیں جن کی بڑی اکثریت ان سے گہری سیاسی وابستگی رکھتی ہے تو کیاانہیں بے مہار چھوڑ دیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے نام پر فوج اور رینجرز کو بدنام کرنے کی مہم کا پس منظر یہی ہے حالانکہ جنرل کیانی کے دور سے سیاست میں عدم مداخلت کا جو سلسلہ شروع ہوا تادم تحریر اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے ایک بینر تلے آنے کے عمل میں معاونت کی بنیاد خود ان کے لیڈروں کی آٹھ سے دس ماہ تک ملاقاتیں اور خواہشات ہیں۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہارالحسن کی تحریر سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ آئی جے آئی جیسا کسی جماعت یا حکومت کے خلاف الائنس بننے جا رہا تھا کس طرح کی سیاست کرنی ہے۔ ویسے مہاجر شناخت پر میرے ذاتی تحفظات یوں ہیں کہ یہ نرالے مہاجر ہیں جو اپنے ہی وطن میں مہاجر ہیں۔ حالانکہ مہاجر تو افغانی ہیں جو پاکستان میں پناہ گزین ہیں، ترکی، جرمنی اور دیگر ملکوں میں پناہ لینے والے شامی یا فلسطینی اور روہنگیا مسلمان مہاجر ہیں جن کا مستقل ٹھکانہ نہیں۔ 1947ء میں اگر ہجرت تھی تو وہ اپنے باقاعدہ وطن آنے کے لئے تھی۔ مہاجر تو عارضی مقیم ہوتا ہے توکراچی، حیدرآباد اور سندھ دیگر شہروں میں آباد یہ لوگ کیا پاکستان میں عارضی مقیم ہیں۔ اردو سپیکنگ کی لسانی شناخت میں بھی کوئی انفرادیت نہیں ہے‘ اگر اردو سپیکنگ کا مطلب اردو بولنے والا ہے 20 کروڑ پاکستانیوں میں سے ایک دو لاکھ ہی ہوں گے جو اردو بول یا سمجھ نہ سکتے ہوں گے۔ کراچی سے پشاور اور گوادر سے تفتان تک ہر جگہ اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح یہ سب اردو سپیکنگ ہیں۔ کیا اچھا ہو اگر مہاجر کہلانے والے اس کا ٹھنڈے دل اور دماغ سے جائزہ لے سکیں۔