• news
  • image

تمدن آفرین،اخلاق آئین جہاںداری

ہمارا ملک، حکومت، عوام، عسکری طاقتیں، قیمتی اثاثے، وسائل،آئین، صوبے اور ہمارا منشور یہ ہماری زندگی کا وہ حصہ ہیں جن میں سے ہم کسی ایک کو بھی غیراہم قرار نہیں دے سکتے، لیکن ایسا ضرور ہے کہ یہ عناصر ایسے ہیں جن کیلئے تاریخی جدول بنا کر ان کی اہمیت کو جاننا ضروری ہے۔

جس طرح علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
کانپتا ہے دل ترا، اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو’بحرتو‘ کشتی بھی تو‘ساحل بھی تو
ہمارا ملک اور اس کے حصول کا بنیادی نظریہ سب سے اہم ہے اگر ہم اس نظریے کی اساس پہ جائیں تو بہت سی چیزیں ہمیں واضح ہوجائیں، جیسا کہ ہمارا آئین اسلامی مملکت ہونے کے حوالے سے واضح ہے کہ کیا ہوگا اور کس بنیاد پر ہوگا جس میں جلد مہیا کئے گئے انصاف کی شرط اولین حیثیت رکھتی ہے، منشور اور حکومت نظام بھی اہمیت کا حامل ہے اور ذرا بھر کا جھول بھی بہت سے مسائل کا پیش خیمہ بن سکتاہے اس کیلئے حکومت ڈھانچے کے ممبران اور حکمرانوں کا آپس میں چلانے کے منشور اور آئین پر اتفاق رائے ہونا بہت ضروری ہے، اس کیلئے پالیسیز بنانے والے اور اس پر عملدرآمد کرنے والے شعبے کے حضرات کا ذاتی دلچسپی اور ذمہ ایماندارانہ رویہ ہی مثبت نتائج کا حامل ہوسکتاہے وگرنہ کہیں بھی بگاڑ کی صورت پیدا ہوسکتی ہے، اس پر سب سے اہم ہماری عسکری قوتیں ہیں کوئی بھی ملک اپنی حکومت کو اپنی فوج کے بنا مضبوط اور محفوظ نہیں بناسکتی، ہماری افواج اس لیے الحمداللہ دشمنوں کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے،کیونکہ ہماری افواج موت سے نہیں ڈرتی اور زندگی سے پیار نہیں کرتی مگر ہماری افواج اور ان کے سربراہوں کا منشور حکومت کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ افواج کا اہم ترین کام سرحدوں کی حفاظت اندرونی انتشار کے سبب خانہ جنگی میں سرگرم ہونا اور انتہائی ناگہانی آفات میں اپنی خدمات انجام دینا ہے مگر حکومت کا ایسی پالیسی بنانا ضروری ہے جس میں بے وجہ افواج کو استعمال کرکے ان کی طاقت، سرمایہ اور خدمات کو ضائع نہ کیاجائے۔ماضی بعید کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہماری افواج بے شمار مقامات اور موقعوں پر اس لیے خدمات انجام دینے کو پہنچ گئی کہ وہاں لوگ بے یارومددگار اپنی حکومت کی طرف سے امداد کے منتظر تھے اور ان تک کوئی بھی نہیں پہنچ پایا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سول سرونٹ نے اپنے والد کو تہجد کے بعد روزانہ اللہ کے حضور رو رو کر افواج پاکستان کی حفاظت اور زندگی کی دعا مانگتے ہوئے دیکھا تو پوچھا آخر آپ اس طرح رو کر دعاکیوں کرتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ بیٹا اس لیے کہ تم جو رات بھر سکون کی نیند سوتے ہو تو میری یہ فوج کے سپاہی تمہاری حفاظت کیلئے جاگتے ہیں۔ میں ان کی حفاظت اور زندگی کی دعا نہ مانگوں تو عوام کیسے پرسکون نیند سوئے گی۔
ہماری قوم ہمارے اسلاف خطہ سرزمین پہ ایک حیثیت اور مقام رکھتے ہیں اور اس وطن کی طاقت ہیں کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں وہ قوت اور غیرت موجود ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ مملکت پاکستان کو دشمن کی شاطرانہ چالوں اور سازشوں سے بچانے کیلئے سینہ سپر ہوجائیں اسی قوم کیلئے اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیراللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرباطل بھی تو
ہماری افواج کا یہ کردار ہمیشہ سے ہی ایسا رہاہے اس لیے اس کو کسی بھی ایسی سرگرمی میںملوث نہیں کرنا چاہیے جس سے ان کی عزت اور وقار ان کے مقصد اور عزم پہ گزند لگے، فضائی سرحدوں، میدانی سرحدوں اور بحری سرحدوں کی حفاظت ہم سب کا بھی فرض ہے لیکن اس میں ہمارا کردار مختلف ہے اس کیلئے ہماری عوام کی باری آتی ہے کہ وہ اندرونی انتشار اور خانہ جنگی سے ملک کو اس طرح محفوظ رکھے جیسے ایک ماں اپنے بچے کو زندگی کے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس میں قبیلوں، جرگوں، خاندانوں، مذہبی جماعتوں کے رفقائے کرام اور عوام پہ ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر عوام یہ کہے کہ ہم تو خود مسائل میں گرے ہیں تو بے شک یہ دنیا اللہ کی رحمتوں کے ساتھ ساتھ آزمائشوں کی آماجگاہ بھی ہے اور اس سے تو کوئی بھی زمانہ کوئی بھی فرد مبرا نہیں جب حکومت، افواج، عوام، آئین اور منشور میں ہم آہنگی اتفاق رائے اور باہمی صلہ رحمی کا رویہ لگے تو بہت سے ایسے مسائل ہیں جو کہ وسائل کی کمی کے باوجود بھی گرفت میں آسکتے ہیں اور ان کے ساتھ یا ان سے درگزر کرکے اچھی زندگی اور اچھی حکومت چلائی جاسکتی ہے۔دنیا کا یہ قانون ہے کہ حکومت اقتدار اور دولت وسلطنت کبھی ہمیشہ کسی کے ساتھ نہیں رہتی اسی لیے اقبال فرماتے ہیں کہ
حکومت کا توکیا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
اب بات کرتے ہیں صوبوں کی تو ہر صوبہ حکومت اور ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتاہے اور ہرصوبے کی موسم، معدنیات،زراعت اور وسائل ومسائل کی اپنی ایک الگ حیثیت اور کیفیت ہے ہمارا ہر صوبہ کسی نہ کسی وجہ سے خود کفیل ہونے کی حیثیت بھی رکھتاہے اور خود کفیل ہے بھی۔ ان صوبوں کے معدنی زرعی، آبی وترویج اور عزت، و وقار میں اضافے کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے اس کیلئے تمام لائحہ عمل بنانا، اختیار کرنا اور اس پر عملدرآمد کرنا بدترین واکاین اور حکومتی صوبوں کے عہدوں پہ فائز متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں ایک اور چیز بھی اہم ہے کہ عوام کا کردار ہر پل ہرجگہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور ان کی مدد ومعاونت کے بنا ملک میں کسی بھی مقام پہ کسی بھی مرحلے میں کچھ بھی مثبت نتائج کے ساتھ منظرعام پر نہیں آسکتا۔ ہمارے قیمتی اثاثے جو ہماری حفاظت کا اہم ترین ذریعہ ہیں وہ صیہونی طاقتوں اور دشمنان اسلام کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں ان اثاثوں کی طرف شاطرانہ ذہنوں کی چالوں کا توڑ فقط، حکومت ،عوام، افواج پاکستان، صوبوں اور سیاستدانوں کی اہم آہنگی باہمی محبت، اتفاق رائے اور مضبوط آئین اور پالیسیز کا اطلاق ہے۔یہ بات تو اظہرمن الشمس ہے کہ اندرونی خانہ جنگی وانتشار اور مختلف مسائل ہر ملک میں جاری وساری رہتے ہیں لیکن ان کو منصفانہ طریقے اور دانشمندی کے ساتھ حل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ معاملات جب میڈیا کے ہاتھ لگتے ہیں تو عالمی سطح پر بحث مباحثہ میں شامل ہونے لگتے ہیں اور ہماری کمزوریاں اور ناکامیاں بن کے دنیا میں پھیل جاتے ہیں اگر ہم اپنے وطن پاک کو ہرطرح کے مسائل اور تیروتفنگ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو لازمی ہے کہ اپنے معاملات اپنی میز پر حل کریں نہ کہ عالمی سطح پہ لاکے ان کو بدنامی کا باعث بنائیں۔کسی بھی ملک وقوم کی کامیابی کا راز اور سربلندی کا اعزاز اس کی خودی اورکردار میں موجزن ہے پاکستان ماشاء اللہ اپنی عسکری طاقتوں وقیمتی اثاثوں اور ایٹمی طاقت کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہے اسی چیز کو ہم جانتے ہوئے اب ہمیں اپنا وقار اور اپنا مقام خود بناتاہے۔
حضرت اقبال کے فرمان کے مطابق
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جوشاخِ نازک پہ آشیانہ بنے کاناپائیدار ہوگا

epaper

ای پیپر-دی نیشن