• news
  • image

عمران کیلئے غیرسیاسی بات اور نارووال سے شاعری

میں عمران خان کے لیے کوئی سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا۔ کبھی کبھی دل ترس جاتا ہے۔ تڑپ جاتا ہے کہ کبھی تو ہمارے سیاستدان غیرسیاسی بات بھی کریں۔ کوئی علمی بات کریں۔ پتہ تو چلے کہ یہ لوگ کچھ نہ کچھ پڑھے لکھے ہیں۔ ان کی باتوں میں کوئی ذوق و شوق کی بات نہیں ہوتی۔ ایک بھٹو صاحب تھے جو واقعی اس حوالے سے معروف سیاستدان تھے۔ ان کی باتوں میں طنز و مزاح کی جھلک بھی ہوتی تھی۔ ان کی اپنی ’’ذاتی‘‘ اردو تھی جو لوگوں کو اچھی لگتی تھی۔ یہ صلاحیت بے نظیر بھٹو میں تھی۔ ان کی اردو بھی مزیدار تھی۔ اب بلاول بھٹو زرداری کی اردو دونوں سے مختلف ہے۔ ابھی انہیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شہلا رضا ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی نے بتایا تھا کہ وہ اردو کے سلسلے میں بلاول سے گفتگو کرتی رہتی ہے۔ بلاول اپنے والد زرداری صاحب کو بھی سنا کریں۔ 

عمران خان نمل یونیورسٹی میانوالی میں طالب علموں سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ یونیورسٹی ایک پہاڑی کے اندر بنائی گئی ہے۔ بڑا اچھا منظر ہے۔ سڑک سے بھی ایک خوبصورت نظارے کی طرح ہے۔ نمل یونیورسٹی میرے قصبے موسیٰ خیل کے پاس ہے۔ اس یونیورسٹی کے لیے بھی بڑی باتیں ہوئیں اور مایوسی کا اظہار ہوتا رہا کہ اس تنہائی اور اکلاپے میں کون پڑھے گا؟ مگر عمران کا ایک مزاج ہے۔ وہ مخالفانہ پروپیگنڈے سے اور بھی سرگرمی سے اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔
کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستان ورلڈ کپ حاصل کر سکے گا۔ یہ ٹاسک بھی عمران خان نے پورا کر دکھایا۔ وہ ٹیم کا کیپٹن تھا اور پاکستان نے عالمی اعزاز حاصل کیا۔ عمران خان کی مقبولیت میں یہ پہلی سیڑھی تھی مگر اس وقت معلوم نہ تھا کہ یہ عمران کو کس بلندی کی طرف لے جائے گی اور بلندی سربلندی بن جائے گی۔
پھر اس نے ایک شاندار اور عظیم الشان کینسر ہسپتال بنوایا۔ عمران نے یہ معرکہ آرائی اپنی ماں کی محبت میں کی۔ وہ پورے پاکستان اور ساری دنیا میں اس ہسپتال کے لیے چندہ مانگتا رہا۔ میں خود بھی عمران خان کے اس مشن میں شریک ہوا۔ ہر آدمی اس کے ساتھ تھا۔ لوگ اس پر اعتبار کرتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ اس کی موجودگی سے لوگوں میں جوش و خروش اور ذوق و شوق کی فراوانی دیکھی گئی ہے۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال بن گیا۔ ہم شوکت خانم مرحومہ کے لیے بھی دعا کرتے ہیں۔ ان کو اللہ نے عمران کی ماں بنایا۔
عمران کہتا ہے کہ ہر منصوبے سے پہلے میرا مذاق اڑایا گیا مگر کوئی بھی مجھے اپنے راستے سے ہٹا نہ سکا۔ نمل یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کے دوران عمران نے صوفیا کی باتیں کیں۔ جو لوگ اپنی ذات سے نکل جاتے ہیں۔ وہ بڑے ہو جاتے ہیں ہمیں اپنی شناخت نہیں بھولنا چاہیے۔ ہم دوسروں کی تہذیب کو جتنا بھی اپنا لیں۔ آدمی کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ان کا ایک جملہ بہت دلچسپ ہے کہ گدھے پر لکیریں لگا دی جائیں تو وہ زیبرا نہیں بن جاتا۔
عمران خان اکثر و بیشتر علامہ اقبال کی بات کرتے ہیں۔ اس کی تکرار اور پیغام پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیتے ہیں۔ ویسے یہ ضروری بھی ہے۔ ہم علامہ صاحب کو مفکر پاکستان کہتے ہیں تو پھر ان کی فکر پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔
وفاقی وزیر مریم اورنگ زیب کہتی ہیں کہ عمران خان ایک ہی تقریر کر رہے ہیں۔ میں مریم صاحبہ سے پوچھتا ہوں کہ کونسا سیاستدان ہے جو ایک ہی تقریر نہیں کرتا تو ہم تو برسوں سے ایک ہی تقریر سن رہے ہیں۔ ’’ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔‘‘ وعدے اور دعوے؟
شکر گڑھ نارووال کے شاعر اور صحافی برادرم ندیم اختر نے کچھ اشعار بھیجے جنہیں کالم میں شامل کر رہا ہوں۔ بڑے شہروں سے دور پورے جذبے سے شاعری کی جا رہی ہے۔
اس نے جتنا سوچا ہو گا
ایک ہی چہرہ ابھرا ہو گا
آنکھ حیا سے بوجھل ہو گی
پہلا خط جب لکھا ہو گا
تنہا بیٹھا سوچ رہا ہوں
وہ بھی کتنا تنہا ہو گا
شکر گڑھ نارووال ہی سے محترمہ پروفیسر ثوبیہ کا ایک شعر بھی ملاحظہ کریں:
مری بے نور آنکھوں میں یہ کیسی روشنی بھر دی
پگھلتی بجھتی سانسوں میں عجب سی تازگی بھر دی

epaper

ای پیپر-دی نیشن