• news
  • image

پی ٹی آئی لاہور کی قیادت اور آر پی او گوجرانوالہ

مشفق خواجہ نے خورشید رضوی کے نام اپنے خط میں لکھا :’’اندھوں کی نگری میں سورج نکلنے کا منظر کوئی نہیں دیکھتا لیکن سورج کی حرارت تو محسوس کی جا سکتی ہے ‘‘۔ لیکن ہم اندھے تھوڑی ہیں ۔ ہم اپنے اپنے سیاسی قائد کے اندھا دھند عشق میں مبتلا ضرور ہیں۔ لیکن اب قدرے صورتحال بدل رہی ہے ۔ ہماری کھوئی بینائی لوٹ رہی ہے ۔ ن لیگی شہر گوجرانوالہ سے پنجابی شاعر مستری عبداللہ تازہ صورتحال بیان کرتے ہیں:۔

ہن غور کراں گے الفت تے، ہن اک دوجے نوں سمجھاں گے
کجھ تیریاں لشکاں گھٹیاں نیں کجھ اساں وی سرت سنبھالی اے
ہمارے ایک مہربان ہیں۔ میاں نواز شریف پر سو جان سے فدا۔ ایک مرتبہ جب وہ نواز شریف کو رعایتی نمبر دے کر بھی مسٹرکلین ہینڈ ثابت نہ کر پائے تو کہنے لگے :’’اگر میاں نواز شریف میں کوئی ’’انیس بیس‘‘ ہے بھی تو یہ ہمارے کاروباری کلچر کی مجبوری ہے ۔ میں اسے نظر انداز کرتا ہوں۔ عمران خان کے چاہنے والے بھی تو اس کے خیرات کے پیسوں سے جواء کھیلنے کا کب نوٹس لیتے ہیں‘‘۔ پھر اپنی بات یوں ختم کی :’’ہم سبھی اپنے اپنے کرپٹ کو سر آنکھوں پر بٹھائے بیٹھے ہیں‘‘۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے سیاسی معاشقہ کے دنوں میں جب ان دونوں قائدین کی خامیاں گنوائی جاتیں تو جواب میں صرف یہ سننے میں آتا:’’پھر اور کون ‘‘؟عمران خان نے کم از کم اس سوال کا کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔ ایک بات اور بھی عمران خان کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ اس نے پاکستان کے سیاسی نصاب میں نئے سرے سے’ کرپشن سے نفرت‘کا مضمون متعارف کروایا ہے ۔ پرانے نصاب میں حلقہ کے ترقیاتی کام میں کمیشن اور چند سرکاری ملازمین کی تقرری اسمبلیوں کے ممبران کا استحقاق سمجھی جاتی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ناخواندگی ، جہالت ، جاگیردارانہ نظام کے مضبوط شکنجے اور ہمارے کرپٹ انتخابی نظام کی وجہ سے ہمارے ملک میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہو سکی ۔ پاکستان کی سیاست میں ایسے لوگ گھس آئے ہیں جن کی اصل جگہ آڑھت کی منڈی ہونی چاہئے ۔ اب کسی آڑھتی کو علم و ادب سے کیا واسطہ پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ قانون اور آئین میں فرق کو سمجھنے کی اسی طرح ریاست اور حکومت میں فرق کو جاننے ، جانچنے کی۔ ہماری سیاست میں اخلاقیات کو عملی سیاست کے تقاضوں کے نام پر دیس نکالا مل چکا ہے ۔ قصور سے چوہدری منظور کہہ رہے ہیں کہ وہ دکان بند ہو گئی ہے جہاں سے آصف زرداری میاں نواز شریف کو لڈوکھلایا کرتے تھے ۔ لیکن سوچنے کی بات ہے ، انہیں میاں نواز شریف کو لڈو کھلانے کیلئے دکان دوبارہ کھولنے سے بھلا کون روک سکتاہے ؟ ہمارے ہاں سیاست نے ایک شرعی نظام کی صورت اختیار کرلی ہے ، جہاں عذر اعتراض کا حق ختم ہو جاتا ہے ۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں ہمیں سزا دی نہیں ،دلوائی جارہی ہے ۔ احتساب کورٹ کے باہر آصف زرداری کے پیر اعجاز ‘میاںنواز شریف کے حق میں دعا مانگتے دیکھے گئے ۔ کیا پوچھا جا سکتا ہے ؟کہ یہ پیر جی خود آئے ہیں یا بھجوائے ہوئے ہیں۔ سیاست بہت نرم ، نازک اور حساس سا پودا ہے ۔ اسے بڑی نگہداشت اور حفاظت چاہئے ۔ برمنگھم میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری کاشف علی کے 123پاکستانی پرائز بانڈ نکل آئے ۔ اس نے اس انعامی رقم سے برطانیہ میں چھ کروڑ روپے کا گھر خرید لیا۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ یہ برطانیہ ہے پاکستان نہیں۔ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے تفتیش کار فل ہائوٹن نے عدالت کو باور کروایا کہ ملزم انتہائی شاطرانہ طریقہ سے یہ جرم کیا ہے ۔ برطانوی عدالت نے اسے 22ماہ کی قید سناتے ہوئے لکھا کہ منی لانڈرنگ جیسے سنگین جرائم برطانوی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔
ان سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔ مجھے اس مرحلہ پر ایک پاکستانی سیاستدان یاد آرہے ہیں ۔ ان کے بے تحاشا پرائز بانڈ نکلتے رہتے ہیں۔ وہ ایک عرصہ سے ہماری ہر وفاقی کابینہ میں نظر بھی آتے ہیں۔ خیر ہماری جمہوریت کا کچھ اپنا چال چلن ہے ۔ جس پر ہم بہتوں کو کوئی اعتراض نہیں ۔ ہمیں برطانوی جمہوریت سے کیا لینا دینا، ہم اپنی جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ ہماری ساری سیاست آجکل مارچ میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن کے گرد گھوم رہی ہے ۔ باون سینیٹرز ریٹائرڈ ہونگے ۔ اس وقت ن لیگ کے پاس ستائس سینیٹرز ہیں اور پیپلز پارٹی کے پاس چھبیس ۔ مارچ میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے دس بارہ سینیٹرز کم ہو جائیں گے۔ ن لیگ کے اتنے ہی بڑھ جائیں گے ۔ صرف اسی لالچ میں ن لیگ نے پوری قوم کو سولی پر چڑھایا ہوا ہے ۔ ہمارے وزیر خزانہ ہمارے قومی خزانے کی طرح ہی غائب ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم سابق صدر چوہدری فضل الٰہی بنے ہوئے ہیں۔ وہ پوچھا کرتے تھے کہ مجھے ایئرپورٹ پر وزیر اعظم بھٹو کے استقبال کیلئے جانا چاہئے یا نہیں۔ یہ کسی سے پوچھے بغیر نااہل وزیر اعظم کے استقبال میں حاضر پائے جاتے ہیں۔ ن لیگ کی اس مشکل میں اعتزاز احسن آگے بڑھتے ہیں۔ انتہائی مہنگے وکیل ، انتہائی مہنگا مشورہ مفت دے رہے ہیں ۔ ان کے مطابق مارچ میں ہونے والے یہ الیکشن پہلے بھی کروائے جا سکتے ہیں۔ اسی قانونی مشورہ میں ملفوف مریم نواز کی تعریف بھی شامل ہے ۔ یاد رہے اعتزاز احسن نوڈیرو میں ایک تقریر کے معاوضہ میں سینٹ کی ایک عدد ممبری لے آئے تھے ۔ ان دنوں ایسا کچھ دینے کی پوزیشن میں صرف ن لیگ ہے ۔ اسی لئے ذہین فطین اعتزاز احسن کو مریم نواز کی ذہانت اور فطانت دکھائی دے رہی ہے ۔ ہمارے سبھی نامور قانون دان خوب جانتے ہیں کہ لاکھوں ووٹروں کی یاریوں ، دلداریوں اور نازبرداریوں کی بجائے ایک جماعتی سربراہ کے در پر حاضری زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے ۔ یہ سینٹ پہنچنے کا آسان ترین راستہ ہے ۔ انہیں یہ گُر علامہ اقبالؒ کی شاعری سے ہاتھ آیا ہے ۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
میں گوجرانوالہ میں ایک ڈینٹسٹ کے کلینک سے نکل رہا تھا۔ وقت بہت ظالم ہے۔ یہ شاہ و گدا سے اپنا خراج لئے بغیر ٹلتا نہیں۔ بزرگ ترین سیاستدان ایک مددگار اور چھڑی کے سہارے کلینک میں داخل ہو رہے تھے ۔ میں سوچنے لگا کہ جلد ہی یہ اسی چال ڈھال میں سینٹ میں بھی داخل ہوا کریں گے۔ پھر یہ گوجرانوالہ میں سیاسی طور پر کچھ اور بھی طاقتور ہو جائیں گے۔ اب دیکھئے تحریک انصاف اس فیملی کے مقابلے میں کیسا امیدوار پیش کرتی ہے؟ ووٹر بھولا نہیں رہا۔ وہ بہت کائیاں ہو گیا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے اپنے جماعتی امیدوار کو بھی ووٹ ڈالنے کو تیار نہیں۔ 70ء میں تبدیلی کا نعرہ پیپلز پارٹی نے بلند کیا تھا۔ آج یہ نعرہ عمران خان کے منہ میں ہے۔ امتیاز صفدر وڑائچ کے بعد رانا آفتاب پنجاب پیپلز پارٹی کے دوسرے صدر ہیں جو تحریک انصاف میں چلے آئے ہیں۔ کالم نگار چوہدری خادم حسین نے انہی حالات میں تحریک انصاف پر نئی پیپلز پارٹی جس کے چیئرمین عمران خان ہیں کی پھبتی کسی ہے ۔ کوئی انہیں بتائے کہ آج تبدیلی کی پارٹی پیپلز پارٹی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہے ۔ پانی پت کی آئندہ انتخابی لڑائی کا میدان سنٹرل پنجاب میں سجے گا۔ صدر تحریک انصاف سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان نے ابھی تک سنٹرل پنجاب کے کسی شہر کا دورہ نہیں کیا۔ وہ زیادہ تر اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے بھی وہ جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار نہیں کرتے کہ راستے میں ان کی ’’راجدھانی‘‘ کے دو شہر گوجرانوالہ اور گجرات پڑتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں ان دنوں آر پی او سلطان اعظم تیموری کے بہت چرچے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ ان کی کارکردگی ہر اعتبار سے قابل ستائش ہے۔ اے کاش ہمارے عبدالعلیم خاں RPO گوجرانوالہ سلطان اعظم تیموری سے آدھی کارکردگی کا مظاہرہ ہی کر دکھائیں۔ پھر تو آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کی کلین سویپ یقینی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن