ویلڈن سید علی رضا گیلانی
سرزمین وطن کی اللہ تبارک و تعالیٰ خیر اس وقت ہر طرف ایک افراتفری، انارکی اور تنائو ہے کہ جو ملک پاک کے طول و عرض پہ محسوس ہو رہا ہے۔ جنوب ایشیاء خطے میں اپنی بہترین جغرافیائی پوزیشن اور بین الاقوامی سطح پہ اعلیٰ ترین محل وقوع رکھنے کے باوجود پاکستان تجارت، معیشت اور اقتصادیات میں اس مقام پہ نہ پہنچ سکا جو قدرتی طور پہ اس کا مقدر لکھا گیا تھا ۔ لکھے کو مٹایا تو نہیں جا سکتا بس ذرا یاس کے بادل چھٹ جائیں تو آس کے صاف و شفاف بادل نظر آئیںگے۔ پاکستان کے زیرزمین موجود ہیرے و جواہرات، معدنیات و قدرتی وسائل ہوں یا ملک پاک کے طبعی ماحول کے ہر طرح کے چار موسم دنیا کی بلند ترین چوٹیوں والے بڑے بڑے پہاڑ وآبشاریں یا سرسبز و شاداب و زرخیز زمین کہ جو زرعی لحاظ سے جہاں میں اپنی جداگانہ منڈیاں بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو کا احساس لیکر ہم’’پرائوڈ پاکستان ‘‘کا بجا طور پہ نعرہ بلند کر سکتے ہیں یہ سچ ہے کہ ہم اگر چند روز کے لیے کسی بھی بیرون ملک کے دورے پہ چلے جائیں تو وہ ملک ہمیں اپنے ملک سے زیادہ محفوظ و پر سکون معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں عوامی سطح کی معاشرتی و سماجی زندگی میں سکون واطمینان کا عنصر ملتا ہے۔ جرمنی کی اعلیٰ قیادت کی زندگی کا معیار عام عوام کی مانند ہے۔ برطانیہ، اٹلی، فرانس و یورپین یونین میں شامل ممالک کے سربراہان بغیر پروٹوکول و سکیورٹی سکواڈ کی بہتات کے بغیر موومنٹس کرتے ہیں۔ سابق نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد نے ملک کے اندر سادگی اور احتساب کا اعلی سطح پہ اقدام کیا اور صحیح معنوں میں اس پر عمل کیا۔ ایوب خاں کو لاتعداد معاملات میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم عوامی بہتری کے لیے ایوب دور کے کیے گئے اکثر اقدامات آج بھی عوامی بہبود کا باعث ثابت ہو رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے لیے مختص و سیع و عریض زمین سابق صدر پاکستان ایوب خاں ہی کا اقدام خیر ہے کہ جس کا عوام بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے بات یہی درست ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل جن میں صحت، تعلیم اور روزگارسر فہرست ہیں کا حل ہونا چاہیے۔ سرزمین وطن پہ 70 سالہ سیاسی تاریخ نے سول و مارشل لا ہر دوء طرزکی حکومتوں نے اپنی اپنی طرز کے ہی نقوش چھوڑے وہ حکومتیں جنہیں ہم جمہوری و سول حکومت ہونے کا نام دیتے ہیں حقیقت میں ایسی حکومتیںبھی نیم مارشل لاء کے طور پہ چلتی رہی ہیں اور عوامی و بہبود کے کاموں کا فوکس گرد آلود ہوکر دھندلایا ہی رہا ہے۔ دیکھئے ناں اورنج ٹرین، میٹروبس جیسے منصوبوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مالیات کے ضمن میں بڑے بڑے کمیشن بنانے اور دکھانے کی باتیں کی جارہی ہیں اور سڑکوں کو ادھیڑ کر رکھ دینے کے سبب عوامی پریشانیوں میں اضافوںکا رونا رویا جا رہا ہے۔ عوامی ٹیکسوں کا ناجائز مصرف بھی سامنے لایا جاتا رہتا ہے جو کہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ صحت و تعلم اور روٹی کے مسائل حل کئے بغیر یوں حکمرانوں کی جان نہیں چھوٹے گی کہ عوام کے اندر شعور کا آجا نا کسی بھی مستقبل کی انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ نظام کی درستگی کیلئے سوچوں کی بدلی بھی جلد متوقع ہے اور ممکن ہے کہ عوامی حکومتوں کو کسی عوامی رنگ میں ڈھالنے کیلئے کبھی کوئی جمہوری تحریک اٹھے، وزیر تعلیم جناب سید علی رضا گیلانی صاحب نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں انرولمنٹ بڑھانے کے لئے پالیسی اپنائی یہ پالیسی اس لحاظ سے اچھی تھی کہ بحرحال اس سے عوامی فائدہ تھا کیونکہ زیادہ سے زیادہ عوام کے لئے تعلیم کے دروازے کھولے گئے۔ اس پالیسی پہ عمل کرنے کے لئے تعلیمی اداروں کے عوامی خدمت کے جذبے سے معمور چند سربراہان نے عمل بھی کیا۔ انرولمنٹ بھی انہی اداروں کی بڑھنے کے چانسز ہوتے ہیں جن اداروں کی اپنی کارکردگی بہتر ہوتی ہے ورنہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی ناقص کارکردگی کا ہے۔ عوامی بھروسے اور تعلیمی اداروں کی بہترین کارکردگی کے سبب عوام کے لئے تعلیمی مواقع کا پیدا ہونا یعنی انرولمنٹ کا بڑھنا ، عوام کا پرائیویٹ اداروں کی بجائے سرکاری اداروں پر اعتمادکرنا اور والدین کا اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں داخلہ دلانے کے لئے مقدم جاننا، یہ سب تعلیمی اداروں کے سربراہان کے ساتھ سرکار کی بھی بہت بڑی کامیابی کا نشان ہے جب سرکاری تعلیمی اداروں میں اداروں کی اچھی کارکردگی کے سبب انرولمنٹ بڑھے گی تو ظاہر ہے کہ تعلیمی سہولتوں کا فقدان جیسے معاملات و مسائل کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے جس سے حکومتی انتظامی اداروں یا حکومت کو پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایک دوسرے پہ مسائل کی ذمہ داری ڈال کر بھاگنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ ہمارا فوکس ملک کی 80% کم وسیلہ آبادی کو تعلیم کے مواقع دینا اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی ہونا چاہئے۔ 20% کی اشرافیہ جو ایچی سن و دیگر ’’رچ انسٹی ٹیوٹس‘‘ میں زیر تعلیم ہے انہیں وسائل کی کمی اس لیے نہیں ہے کہ انکا ریونیو امیر والدین کے امیر بچے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا ریونیو غریب سرکار کی غریب عوام کے غریب بچے ہیں۔ سرکاری ادارے غریب ہیں لیکن سرکار کی غربت کی بات نہیں کریں گے۔
وزیر تعلیم پنجاب سید علی رضا گیلانی نے اگر پنجاب میں انرولمنٹ بڑھانے کی طرف راست اقدام کیا تو یہ عوامی خدمت ہے جسے عوامی درد رکھنے والے داد و تحسین دے رہے ہیں جب بچے پڑھیں گے تو قوم کی راہ عمل متعین ہوگی اور مستقبل بھی سنورے گا۔ تعلیمی سہولتوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے پنجاب کے وزیر تعلیم متحرک ہیں سہولتوں کی فراہمی بھی ہوگی۔ بحر حال ملک کے طول و عرض پہ پھیلے کمرشل و نجی تعلیمی اداروں کے مافیا کو ختم کرنے کا واحد حل بھی یہی ہے کہ سرکاری اداروں میں انرولمنٹ بڑھائی جائے اور زیادہ سے زیادہ سستے سرکاری تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔ پاکستا ن کو‘‘مستحکم و باوقار پاکستان‘‘ فروغِ تعلیم سے ہی بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان سے پیار کیجئے۔